Search or add a thesis

Advanced Search (Beta)
Home > Poultry Farm Monitoring System

Poultry Farm Monitoring System

Thesis Info

Author

Abdul Rahman Shamir, Farah Salam Mir, Umer Hafeez Khan

Supervisor

Waqar Ali Khan

Department

Department of Computer Science

Program

BSE

Institute

COMSATS University Islamabad

Institute Type

Public

City

Islamabad

Province

Islamabad

Country

Pakistan

Thesis Completing Year

2018

Thesis Completion Status

Completed

Subject

Computer Science

Language

English

Added

2021-02-17 19:49:13

Modified

2023-01-07 06:26:26

ARI ID

1676720020503

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Similar


Loading...
Loading...

Similar Books

Loading...

Similar Chapters

Loading...

Similar News

Loading...

Similar Articles

Loading...

Similar Article Headings

Loading...

قاضی سجاد حسین

مولانا قاضی سجاد حسین
۲۳/دسمبر۱۹۹۰ء کوحضرت مولانا قاضی سجاد حسین صاحب کا انتقال ہوگیا۔ اناﷲ واناالیہ راجعون۔
قاضی سجاد حسین صاحب کے انتقال سے ملت اسلامیہ ایک زبردست عالم دین ممتاز مفکر ومدبر سے محروم ہوگئی ہے۔کیونکہ قاضی صاحب بڑے ہی بلند اوصاف کے حامل انسان تھے وہ تصنع وبناوٹ سے قطعاً مبراتھے۔عرصہ دراز تک مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے خدمت دین میں منہمک و مشغول رہے۔عربی وفارسی کے جید عالموں میں ان کاشمار تھا۔حضرت مفکر ملّت مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے ہمراہ ہی ۱۹۶۷ء میں انہیں فارسی زبان کے عالم کی حیثیت سے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کے ہاتھوں پدم شری ایوارڈ عطا کیا گیا۔مفتی صاحب مرحوم کوعربی اسکالر ایوارڈ دیا گیا تھا۔
قاضی صاحب حضرت مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے شاگرد خاص بھی تھے اور ساتھی بھی۔اکثر علمی اورقومی معاملات میں وہ حضرت مفتی صاحب سے مشورہ فرماتے اوران کے مشورے ورائے ہی کوا فضیلت واہمیت دیتے تھے۔
۱۹۵۴ء میں حضرت قبلہ مفتی صاحب نے راقم(عمید الرحمن عثمانی) کو حضرت قاضی سجاد حسین کی شاگردی میں سونپ دیا۔راقم نے قاضی صاحب سے فارسی کی کئی کتابیں پڑھیں اوران کی صحبت وشاگردی میں رہ کر کافی کچھ فیض و استفادہ حاصل کیا۔
قاضی صاحب ہمارے سب کے لیے قابل احترام بزرگ تھے۔حضرت قبلہ اباجان مفتی عتیق الرحمن عثمانی سے ان کو جولگاؤ تھا وہ بھی قابل ذکر ہے۔ ہرجمعہ کوبعد نماز مغرب حکیم عبدالحمید صاحب متولی ہمدرد دواخانہ دہلی،مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن، مولوی سعید احمد اکبرآبادی، حکیم اقبال احمد ہمدم دواخانے والے اورقاضی سجاد حسین صاحب پابندی سے ادارہ ندوۃ المصنفین میں آتے اورکھانا سب ساتھ ہی تناول کرتے، ہرجمعہ ہم سب کے لیے عید سے کم نہ ہوتا۔ والدہ مرحومہ ہرجمعہ کوطرح طرح کے عمدہ کھانے خوداپنے ہاتھوں سے تیارکرکے مسرت وانبساط حاصل کرتیں۔دراصل...

وكالت كی شرعی حیثیت

Islam emphasizes on the establishment of a just society and it is the foremost duty of every Muslim to strive for that. A society can experience peace as long as justice prevails therein; it faces problems only when injustice becomes order of the day. Justice or injustice is the byproduct of human behavior and interaction which at times lead to disputes and conflicts. Justice needs settlement of disputes and conflicts. For that matter it is necessary for judicial system to be in place. The present paper represents a humble attempt to explain and analyze judicial system as developed by the umntah

اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات

اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات مقالے کو چھے ابواب میں تقسیم کیا ہے جن کی تفصیل یہ ہے : پہلا باب افسانے میں اسلوب اور تکنیک کی اہمیت کے بارے میں ہے۔ اس باب کے آغاز میں افسانے کی فنی مبادیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس صنف نے مغرب میں جنم لیا۔ اس لیے اس کے اصول بھی وہیں مرتب کیے گئے۔ لیکن اس صنف کی اردو میں آمد تک ہیئت کے اعتبار سے کئی تبدیلیاں آئیں۔ اسلوب اور تکنیک کے کئی تجربات ہوئے۔ اس باب میں ان باتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں تکنیک اور اسلوب کے فنی مسائل پر بحث کی گئی ہے اور مغرب میں افسانہ نگاری کی روایت اور اس روایت کی بدلتی ہوئی صورتوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ دوسرے باب کا تعلق اردو افسانے کے دورِ اولین سے ہے۔ پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم ہمارے دو ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنی حیات ہی میں دبستان کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس طرح افسانوی نثر میں حقیقت نگاری اور رومانویت کو ارتقا کرنے کا موقع ملا۔ اسی باب میں سجاد ظہیر اور ڈاکٹر رشید جہاں کے مجموعے "انگارے" کا بھی تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس مجموعے پر مغرب کی جدید تحریکوں کے اثرات ہیں۔ اس طرح رومانیت اور حقیقت نگاری کے علاوہ جدیدیت کی مغربی روایت کا جائزہ لیا ہے۔ تیسرے باب میں اردو افسانے کو ترقی پسند تحریک کے ساتھ اور حقیقت نگاری کی مقبولیت کے محرکات کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اردو افسانے کا زریں دور ہے۔ جب سعادت حسن منٹو ، کرشن چندر، غلام عباس، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی ، راجندر سنگھ بیدی جیسے اہم افسانہ نگار سامنے آئے جن کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ترقی پسند تحریک ایک واضع منشور کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ اس منشور کا تقاضا تھا کہ جو کچھ لکھا جائے وہ حقیقت نگاری کے پیرائے میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد میں حقیقت نگاری کو خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔ لیکن حقیقت نگاری میں بھی ہر بڑے افسانہ نگار نے اپنا انفرادی رنگ پیدا کیا ۔ اس باب میں جہاں ایک طرف حقیقت نگاری کی مقبولیت کے اسباب کا جائزہ لیا ہے وہاں پر اہم افسانہ نگار کی انفرادی خصوصیات کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔ چوتھا باب ترقی پسند عہد- اردو افسانے پر مغرب کے نفسیاتی و تکنیکی اثرات کے موضوع پر ہے۔ ترقی پسند عہد میں اگرچہ حقیقت نگاری کو مقبولیت حاصل ہوئی مگر سماجی شعور کے ساتھ ساتھ ایک حلقہ ایسا بھی تھا جس نے مغربی تحریکوں اور نظریات سے کسبِ فیض کا سلسلہ جاری رکھا۔ خاص طور پر علمِ نفسیات کے اثرات بعض افسانہ نگاروں پر بہت نمایاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس باب میں مغرب کے نفسیاتی و تکنیکی اثرات کا مجموعی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاروں کے انفرادی مطالعے بھی شامل ہیں۔ پانچواں باب "آزادی کے بعد اردو افسانہ" کے موضوع پر ہے۔ تقسیم ہند کے بعد فسادات کے موضوع پر بہت لکھا گیا۔ یہ المیہ جس نے انسانیت کے اخلاقی رویوں کی دھجیاں اڑا دی تھیں اپنے ساتھ کئی کہانیاں لے کر آیا۔ اس عہد میں افسانہ نگار کے رویے اور طریقہ اظہار کی جو صورتیں سامنے آئیں۔ ان کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فسادات کے زمانے میں معیاری افسانہ تعداد میں کیوں کم ہے۔ علاوہ ازیں فسادات کے بعد ہجرت کے کرب اور رومانویت کابھی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ساٹھ کی دہائی میں جدید افسانے کا آغاز ہوا اسی باب میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جدید افسانے کے محرکا ت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ چھٹا باب جدید افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے نئے تجزیات کے مجموعی جائزے اور انفرادی مطالعوں پر مشتمل ہے۔ اس باب میں نئے افسانے کے فکری پس منظر، علامتی نظام اور اس کے فنی لوازم، اسلوب اور تکنیک کی سطح پر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں ، ابلاغ کے مسائل ، نئے زاویہ نظر کی آمد اور علامتی افسانے کی مقبولیت کے محرکات کو تفصیل سے جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساٹھ کے بعد ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں بے شمار نام ایسے ہیں جو اپنا انفرادی رنگ رکھتے ہیں اس باب میں منتخب جدید افسانہ نگاروں کی تکنیک اور اسلوب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی انفرادیت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔