ساجدالرحمٰن اورکزئی
صاحب اسلام
Sheikh Zayed Islamic Center
PhD
University of Peshawar
Public
Peshawar
KPK
Pakistan
Comparative Religion
Urdu
ادیانِ ثلاثہ،ادیانِ ثلاثہ اسلام ، عیسائیت اور یہودیت
The Three Religions (Islam, Christianity and Judaism)
2021-02-17 19:49:13
2023-02-17 20:17:31
1676709053452
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
PhD | University of Peshawar, Peshawar, Pakistan | |||
PhD | University of Peshawar, پشاور | |||
Mphil | University of Haripur, Haripur, Pakistan | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, Multan, Pakistan | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, Faisalabad, Pakistan | |||
MA | Minhaj University Lahore, لاہور | |||
Mphil | University of Gujrat, گجرات | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, Faisalabad, Pakistan | |||
Mphil | Government Post Graduate College Samanabad, Faisalabad, Pakistan | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
MA | University of the Punjab, Lahore, Pakistan | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, Multan, Pakistan | |||
Mphil | University of Peshawar, Peshawar, Pakistan | |||
MA | Minhaj University Lahore, Lahore, Pakistan | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | University of Science and Technology, Bannu, Pakistan | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
بشیر احمد کٹھوری
صدحیف کہ پچھلے دنوں ہماری بزم انس ومحبت کاایک اوررکن ہم سے بچھڑ گیا۔ یعنی مولانا بشیر احمدصاحب کٹھوری المعروف بہ بھٹہ نے طویل علالت کے بعد وفات پائی۔ مولانا نے اگرچہ علوم عربیہ اوردرس نظامی کی سیوہارہ، امروہہ اور مرادآباد میں باقاعدہ تکمیل کی تھی۔لیکن ان کوکبھی ان علوم کے ساتھ اشتغال یاان کے درس کاموقع نہیں ملا۔اس لیے نتیجہ کے اعتبارسے ان کوباقاعدہ وباضابطہ عالم کہنا بھی مشکل ہے۔لیکن دماغ اورذہن بلا کا رساپایا تھا۔ذہانت اور جودتِ طبع کایہ عالم تھاکہ اگروہ علوم دینیہ واسلامیہ میں مشغول رہتے تومولانا عبیداﷲ سندھی بنتے۔ اور اگر انگریزی تعلیم حاصل کرلیتے تو سرعلی امام یاسر فضل حسین سے کم نہ رہتے۔ بڑے بڑے علما اور انگریزی تعلیم یافتہ حضرات کی مجلسوں میں جب کسی موضوع پرتقریر کرتے تھے تواپنے منطقی استدلال اور برہانی طرزِ بیان سے چھاجاتے تھے اور پھراُن کی تردید کرناآسان نہیں رہتاتھا۔معاش کے لیے انھوں نے کاروبار کاراستہ اختیار کیااور اس میں اپنی ذہانت اورمحنت سے اس درجہ ترقی کی کہ مٹی سے سونا پیدا کرنے لگے۔ اپنی اینٹوں سے سیکڑوں شاندار عمارتیں کارخانے اورفیکٹریاں بنا ڈالیں۔لیکن خودہمیشہ مزدوروں کی طرح کام کرتے رہے اور انھیں کی طرح رہتے رہے۔ خلقِ خداکی خدمت کاان میں بے پناہ جذبہ تھا۔جوشخص بھی ان کے پاس جس کام کے لیے پہنچ جاتاتھا ان کے درسے مایوس نہیں لوٹتا تھا۔ جمعیۃ علمائے ہندکے اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔اوران کا اس جماعت میں بڑا وقار اور امتیاز تھا۔کانگریس کے بھی بڑے بااثر اورسر گرم کارکن تھے۔تحریک خلافت اورپھر تحریک آزادی کے زمانہ میں کئی بارجیل گئے جس سے ان کی صحت اورکاروبار کوبڑانقصان پہنچا۔لیکن ان کے جوش،سرگرمی اور ولولۂ کار میں کبھی فرق نہ آیا۔قلب ودماغ کی ان خوبیوں کے ساتھ ان میں اخلاقی جرأت بھی کچھ کم نہیں تھی۔ صوبہ اتر پردیش کی کونسل...