Tariq Aziz
Muhammad Shahbaz Manhaj
Institute of Islamic Studies
Mphil
University of Sargodha
Public
Sargodha
Punjab
Pakistan
2014
Orientalism
English
استشراق، سیرت
Orientalism,Sirah
2021-02-17 19:49:13
2023-02-19 12:33:56
1676709361723
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
Mphil | University of Sargodha, Sargodha, Pakistan | |||
Mphil | University of Sargodha, سرگودھا | |||
PhD | University of Malakand, مالاکنڈ | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, Bahawalpur, Pakistan | |||
PhD | National University of Modern Languages, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | National University of Modern Languages, Islamabad, Pakistan | |||
Mphil | University of Karachi, Karachi, Pakistan | |||
PhD | University of Malakand, Malakand, Pakistan | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
MS | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
Government College University Faisalabad, Faisalabad, Pakistan | ||||
PhD | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
MA | University of Karachi, Karachi, Pakistan | |||
BS | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
Mphil | University of Management and Technology, Lahore, Pakistan | |||
MA | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
MSc | Quaid-i-Azam University, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | University of Sindh, Jamshoro, Pakistan | |||
Mphil | Minhaj University Lahore, Lahore, Pakistan | |||
PhD | Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
ڈاکٹر مختار احمدانصاری مرحوم
۹؍ مئی ۱۹۳۶ء کی شام کو سات بجے کے قریب میں ڈیرہ دون کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا کہ پیچھے سے ایک موٹر تیزی سے آئی اور نکل گئی، میں نے دیکھا کہ اس پر ڈاکٹر انصاری بیٹھے ہیں، سرکھلا تھا اور چہرہ سے بے حد تکان معلوم ہوتا تھا، رات گزر گئی اور صبح کو ان کی قیام گاہ کی تلاش کی، معلوم ہوا کہ وہ رات ہی دلّی چلے گئے، لیکن جب شام ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ رات دلّی نہیں گئے، راستہ سے سیدھے جنت کو سدھارے، دل دھڑکا آنکھیں پرنم ہوئیں اور سینہ سے آہ کا ایک شعلہ اٹھا، جس نے صبر و تمکین کی متاع کو جلا کر خاکستر بنادیا۔
ڈاکٹر مختار احمد انصاری گو نسب و وطن کے لحاظ سے ضلع غازی پور کے ایک ممتاز قصبہ یوسف پور کے ایک نہایت شریف خاندان سے تھے، مگر در حقیقت ان کا تعلق پورے ہندوستان سے تھا، اس یوسف کا کنعان، وہ محدود مقام نہ تھا، جس کو یوسف پور کہتے ہیں، بلکہ پورا ہندوستان تھا، اسی لئے آج پورے ہندوستان نے ان کی موت کا ماتم کیا، کیا مسلمان، کیا ہندو، کیا سکھ، کیا عیسائی سب نے یہی جانا کہ آج ان کا حقیقی بھائی اس دنیا سے چل بسا۔
میں نے ڈاکٹر انصاری کو سب سے پہلے ۱۹۱۲ء میں اس وقت دیکھا جب وہ بلقان کی جنگ میں طبی وفد لے کر ترکی جارہے تھے اور اس تقریب سے لکھنؤ اسٹیشن سے گزر رہے تھے، مولانا شبلی اور بہت سے لوگ لکھنؤ اسٹیشن پر ڈاکٹر صاحب کو الوداع کہنے گئے تھے، اس وقت ڈاکٹر صاحب کی عمر ۳۰، ۳۲ برس کی تھی، کھلتا ہوا رنگ، دُبلا پتلا چھریرا بدن کشیدہ قامت، ہنستا چہرہ، انوری یا قیصری مونچھیں، جسم پر چست خاکی وردی،...