امینِ حزیں
امینِ حزیں (۱۸۸۲۔۱۹۶۸ئ) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام خواجہ محمد مسیح پال ہے۔ سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں انہیں مولوی میر حسن جیسے استاد سے اکتسابِ فیض کا موقع ملا۔ مولوی صاحب کی تربیت نے ان کے شعور کو اجاگر کیا۔ ان کی ملازمت کا بیشتر حصہ گلگت میں انڈین پولیٹیکل سروس میں گزرا۔ ۱۹۳۹ء میں خان بہادر کا خطاب پا کر ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور اپنے آبائی شہر سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی۔ (۲۰۳) ۱۹۰۲ء میں ان کی پہلی غزل لکھنو کے ’’پیامِ یار‘‘ رسالے میں چھپی اور اس کے بعد شعر و شاعری کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ ابتداء میں مولانا ظفر علی خاں اور مولانا جوہر کے رنگ سے متاثر تھے بعد ازاں حضرت علامہ اقبالؒ کو پسند کرنے لگے اور یہ رنگ ایسا بھایا کہ پھر کسی اور کا نقش نہ جم سکا۔ امینِ حزیں کا کلام بر صغیر پاک و ہند کے مختلف ادبی رسائل میں چھپتا رہا جن میں ’’پیامِ یار‘‘ ‘ ’’مخزن‘‘ ‘ ’’ساقی‘‘ اور ’’ہمایوں‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔(۲۰۴) امینِ حزیں کا پہلا شعری مجموعہ ’’گلبانگِ حیات‘‘ ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’نوائے سروش‘‘ الفیصل ناشران و تاجران ادارے نے شائع کیا۔
تیسرا مجموعۂ کلام ’’سرودِ سرمدی‘‘ بھی الفیصل ناشران و تاجران ادارے نے شائع کیا۔ امینِ حزیں کی شاعری کے آٹھ مسودے ابھی تک شائع نہیں ہو سکے۔
یہ آٹھوں مسودے ان کے عزیز و اقارب کے پاس موجود ہیں۔ امینِ حزیں کے ہزاروں کی تعداد میں مشاہیر کے نام خطوط بھی محفوظ ہیں۔ اردو ادب کے محققین کے لیے یہ شعری و نثری فن پارے قیمتی سرمایہ ہیں۔
امینِ حزیں ایک مشاق اور قادر الکلام سخن ور تھے۔ انہوں نے تقریباً ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ انہیں اردو‘ عربی‘ ہندی ‘ سنسکرت‘ انگریزی‘ پشتو اور دیگر علاقائی...
هدف هذا البحث إلى معرفة أثر جهود الأردن ومصر في جذب مدخرات العاملين بالخارج ونتائجها، من أجل جذب وتشجيع الاستثمارات، فقد زادت أعداد المهاجرون العاملين بالخارج فى الأردن ومصر فى السنوات الأخيره، ولا شك أن جذب المدخرات له تأثير كبير على الاقتصاد، وتبرز أهمية هذه الدراسة من عدة جوانب فمن الناحية العلمية بالرغم من وجود الدراسات التي تناولت جذب مدخرات العاملين بالخارج فى المملكة الاردنية وجمهورية مصر العربية الا أنه مازالت الحاجة قائمة لمزيد من الدراسات في هذا المجال، خاصة بعد تزايد أعداد المهاجرين للخارج من الأردن ومصر، وعليه يتوقع أن تشكل هذه الدراسة إضافة في هذا المجال، أما من الناحية العملية: فيتوقع أن تكون هذه الدراسة وما تتوصل اليه من نتائج مفيدة بالنسبة لمتخذي القرار الاقتصادي في جميع الدول. والمنهج المستخدم هو التاريخي والوصفي والتحليلي، ومن أهم النتائج التى توصل لها البحث أن مدخرات العمالة بالخارج في الأردن ومصر تساهم في سد النقص في العملات الحرة.
The organizations face lot of problems like malpractices, wrongdoing and expropriation. These problems occur
due to the system failure of the organizations. Whistle blowing is policy which helps to prevent from the
wrongdoing and other illegal activities. The purpose of this research is to identify the factors and investigate
the significance of these factors for the effective whistle blowing. For conducting this research a public limited
quoted company has been selected from textile sector.
The research approach is quantitative. Quantitative research is essentially collecting numerical data to explain
a particular phenomenon. A survey methodology has been adopted for this research. A listed company on the
basis of predetermined criteria in order to materialize the study has been selected from the companies listed
on Lahore stock exchange. Employees of the company have been taken as population frame.
The researcher used the stratified random sampling technique for making the homogeneous sub groups before
the sampling. The data for this research has been gathered by using a structured self reporting questionnaire.
The questionnaire has been designed on Likert scale. Structured questions were used to obtain the responses
from the respondents. For analyzing the data, the descriptive statistics were calculated. The independent
samples t-test has been used for analysis with the help of the SPSS.
The results show that there is no significant difference of employee's perception between the groups the
employees about the whistle blowing exists according to the variables.