Inayat Ur Rahman, Muhammad
Nasir-Ur-Din
Allama Iqbal Open University
Public
Islamabad
Pakistan
2014
Completed
xviii, 177.
English
2021-02-17 19:49:13
2023-01-06 19:20:37
1676710393015
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
PhD | Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | |||
MA | University of Peshawar, Peshawar, Pakistan | |||
Mphil | Quaid-i-Azam University, Islamabad, Pakistan | |||
MA | University of Peshawar, Peshawar, Pakistan | |||
MA | University of Peshawar, Peshawar, Pakistan | |||
Mphil | Quaid-i-Azam University, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | Quaid-i-Azam University, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | International Islamic University , Islamabad, Pakistan | |||
Mphil | Quaid-i-Azam University, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | University of Peshawar, Peshawar, Pakistan | |||
PhD | Quaid-i-Azam University, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | University of Peshawar, Peshawar, Pakistan | |||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
PhD | University of Peshawar, Peshawar, Pakistan | |||
Mphil | Quaid-i-Azam University, Islamabad, Pakistan | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
فینٹسی کولاژ
ضیغم رضا،پی ایچ ڈی اسکالر
جب مجھے اپنی اس صلاحیت کا ادراک ہوا کہ میں کسی بھی کتاب کے صفحے کو ایک نظردیکھ کر اس کے متن کو حفظ کرسکتا ہوں تو میں نے اپنا تمام تر وقت مطالعے میں صَرف کرنا شروع کردیا۔ جو صفحہ جہاں سے بھی ہاتھ لگا میں نے حفظ کرڈالا۔ اپنے جاننے والوں کی نجی لائبریریوں کو چند دنوں میں ختم کرکے میں نے شہر کا رُخ کیا۔ سرکاری و نجی لائبریریاں؛ جہاں تک بھی میری رسائی ہوئی؛ وہاں موجود کتابیں اب میرے حافظے میں بھی محفوظ ہوچکی تھیں۔ دنوں؛ ہفتوں اور مہینوں کی بے چینی کے بعد بالآخر وہ دن آگیا جب مجھ پہ انکشاف ہوا کہ اب پڑھنے کو کچھ نہیں بچا۔ میں نے تمام لائبریریوں میں موجود تمام تر کتابیں اپنے ذہن میں محفوظ کرلی تھیں۔
اُس رات میں اطمینان سے سویا کہ مزید پڑھنے کی تڑپ اب بالکل ختم ہوچکی تھی۔ رات کے کسی لمحے مَیں بیدار ہوا تو مجھے پانی کی پیاس محسوس ہوئی۔ ہونٹوں پہ زُبان پھیرتا میں اپنی چارپائی سے اُترنے ہی لگا تھا کہ مجھے یاد آیا؛ تاریخ میں ایک سے زائد اشخاص کو چارپائی سے اُترتے ہوئے سانپ نے ڈس لیا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو وہیں روکا اور دائیں طرف سے اُترنے کی بجائے بائیں طرف سے زمین پہ پاؤں رکھنا چاہے۔ اس سےپہلے کہ میرے پاؤں زمین پہ ٹِکتے مجھے یاد آیا کہ ایک شخص نے چارپائی کے بائیں طرف سے زمین پہ پیر اُتارے تھے مگر پاؤں ٹِکنے سے پہلے ہی وہ اوندھے منہ گرا اورموت کے منہ میں چلاگیا تھا۔۔ میں نے اپنے پاؤں سمیٹے اور اپنی چارپائی کا ہر حصہ آزمایا کہ شاید میں زمین پہ پاؤں رکھ سکوں مگر بے سود۔۔۔ میری یادداشت...