ہم مدینے کی گلیوں میں جب جائیں گے
اشک اپنے تو تھمنے نہیں پائیں گے
ابرِ رحمت کے چھینٹے برس جائیں گے
اشک آنکھوں میں ہم جب بھی چھلکائیں گے
ہاتھ خالی تو واں سے نہیں آئیں گے
اک شفاعت کی سوغات تو لائیں گے
صبح ہو ، شام ہو، رات ہو یا کہ دن
اُن کی توصیف کے گیت ہم گائیں گے
زندگی کی کڑی دُھوپ میں خود کو ہم
گنبدِ سبز کے سائے میں پائیں گے
جب مدینے سے رُخصت کی ہو گی گھڑی
غمزدہ دل کو ہم کیسے بہلائیں گے
Tujuan penelitian ini adalah untuk mengetahui peningkatan kinerja guru di MTS Negeri 2 Banggai Semester 1 Tahun Pelajaran 2018/2019 setelah mengikuti supervisi akademik. Penelitian ini adalah penelitian tindakan sekolah. Subjek penelitian adalah guru di MTS Negeri 2 Banggai yang berjumlah 8 orang guru. Data kinerja guru pada penelitian ini dikumpulkan menggunakan kuesioner. Teknik analisis data menggunakan analisis deskriptif. Indikator keberhasilan penelitian ini adalah: apabila rata-rata kinerja guru minimal pada kategori Tinggi, dan ketuntasan klasikal sebesar 90%. Berdasarkan penelitian yang telah dilakukan dapat disimpulkan bahwa: penerapan supervisi akademik secara efektif dapat meningkatkan kinerja guru di MTS Negeri 2 Banggai Semester 1 Tahun Pelajaran 2018/2019. Hal ini ditunjukkan dari rerata kinerja guru sebelum penelitian sebesar 130, 50 berada pada kategori sedang, meningkat pada siklus I menjadi 150, 13 berada pada kategori tinggi dan meningkat lagi pada siklus II menjadi 167 berada pada kategori sangat tinggi
سعادت حسن منٹو اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہیں۔ انہوں نے دیگر تخلیقی اور غیر تخلیقی جہات میں بھی طبع
آزمائی کی ہے جن میں صحافتی کالم، ریڈیائی ڈرامہ،مضمون نگاری اور خاکہ نگاری میں انُہیں خاص شہرت حاصل تھی۔
اس مقالے کاموضوع س”عادت حسن منٹو بطور مضمون نگار اور خاکہ نگار (تحقیقی و تنقیدی جائزہ) “ہے۔ مقالے کو سات
ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جن کا اجمالی تعارف درج ذیل ہے۔
پہلے باب میں اردو مضمون نگاری کی روایت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون نگاری کے آغاز و ارتقا کے علاوہ اس
کے پس منظر کو جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ مضمون اور مضمون نگاری کی فنی ضروریات کا احاطہ کرنے کے علاوہ
اس باب میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ باقاعدہ اردو مضمون نگاری سے قبل اردو نثر کا رواج موجود تھا تاہم
مضمون نویسی یا انشا پردازی کا با قاعدہ آغاز دلی کالج کے استاد ماسٹر رام چندر اور بعد ازاں سر سید تحریک سے ہوا۔
اس سے قبل اردو نثر میں زبان و بیان میں تصنع اور تکلف کے سبب خیالات کی روانی متاثر ہوتی تھی لیکن دلی کالج اور
سرسید تحریک نے اردو مضمون نگاری کو ایسا اسلوب عطا کیاجس میں علمی،ادبی،سائنسی،مذہبی اور معاشرتی ہر طرز
کے مضمون لکھے جا سکتے تھے۔ اس باب میں اس امر کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ اردو کے ابتدائی مضمون نگار کون
کون سے تھے اور مضمون کی اولیں صورتیں کیا تھیں جبکہ اردو مضمون نگاری ماسٹر رام چندر اور سر سید کے عہد
سے لے کر منٹو کے عہد تک کیسے ارتقاء پذیر ہوئی اور اس میں کیا نمایاں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔
دوسرا باب منٹو کے مضامین سے متعلق ہے۔ اس میں منٹو کے مضامین کے موضوعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ منٹو
کے مضامین میں ان کے انشائی، فکاہی،ادبی و شخصی،سیاسی و سماجی اور فلمی موضوعات پر مبنی مضامین کے حوالے
سے منٹو کے ادبی ،سیاسی اور سماجی نظریات سے بحث کی گئی ہے۔ جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ منٹو
کے ادبی، سیاسی و سماجی نظریات ان کے عہد سے ہم آہنگ تھے۔ منٹو کے عہد میں علمی مضمون نگاری کا رواج ہو چکا
تھا لیکن ان کے مضامین کا عمومی انداز فکاہی ہی رہا۔ تاہم اس باب میں یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ منٹو کے انتخاب کردہ موضوعات اپنے اندر ایک گہری سنجیدگی اور تفکر بھی رکھتے ہیں۔ تیسرے باب میں منٹو کی اہمیت بطور مضمون نگار متعین کی گئی ہے۔ نیز ان کے مضامین کے اسلوب کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ منٹو کے مضامین پر ان کے افسانوں کا اسلوب کس قدر اثر انداز ہوا ہے اور اردو مضمون نگاری میں منٹو کے اسلوب کی اہمیت و افادیت کیا ہے۔ نیز اسی باب میں منٹو کی بحیثیت مضمون نگار اہمیت متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چوتھا باب اردو ادب میں خاکہ نگاری کے آغاز و ارتقا اور اس کے فن سے متعلق ہے۔ اس باب میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو ادب میں خاکہ نگاری کے آثار بعض قدیم تذکروں اور سوانح میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ تا ہم " آب حیات" اس ضمن نمایاں تذکرہ ہے جس میں خاکہ نگاری کے واضح نقوش ملتے ہیں۔ اسی طرح اردو خاکہ نگاری کے ارتقاء میں دیگر خاکہ نگاروں کی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی باب میں اردو خاکہ نگاری کے فن پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ نیز ایک جائزہ اردو خاکہ نگاری کی تاریخ کا بھی لیا گیا ہے۔ سعادت حسن منٹو کی خاکہ نگاری کا مفصل جائزہ پانچویں باب میں لیا گیا ہے۔ اس باب میں منٹو کے خاکوں کو تین بڑے عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اسی طرح سیاسی،ادبی و صحافتی اور فلم کے شعبے سے وابستہ شخصیات پر مشتمل خاکوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی باب میں منٹو کی خاکہ نگاری کے نمایاں اوصاف اور اردو فن خاکہ نگاری پہ ان کی دسترس نیز اردو خاکہ نگاری میں افسانوی طرز اظہار کے حوالے سے ان کے خاکوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ چھٹا باب فن خاکہ نگاری میں منٹو کے مقام کے تعین کے بارے میں ہے۔ اس میں منٹو کے خاکوں کے اسلوب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نیز ان کے اسلوب کے نمایاں اوصاف اور ان کے اسلوب کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور ان کے ہم عصر اہم خاکہ نگاروں سے ان کا تقابل کرتے ہوئے اردو خاکہ نگاری پر ان کے اثرات اور اردو خاکہ نگاری میں ان کے مقام کے تعین کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتواں باب مجموعی مطالعے پر مشتمل ہے۔ اس باب میں مقالے میں جن مباحث پر گفتگو کی گئی ان کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنےکی کوشش کی گئی ہے اور منٹو کی اردو ادب میں اہمیت اور ان کے متعین مقام و مرتبے کا جائزہ لیا گیا
ہے۔ اردو ادب کی دیگر اصناف افسانہ نگاری،ڈرامہ نگاری اور منٹو کی صحافتی زندگی سے ان کی کالم نگاری کا بھی
اجمالا ًتذکرہ کیا گیا ہے اور اردو مضمون نگاری اور خاکہ نگاری پر ان کے اثرات کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ نیز اس امر کا بھی
جائزہ لیا گیا ہے کہ منٹو کے مضامین اور خاکوں میں کون سے اشتراکات ہیں کہ ان کا جائزہ ایک ہی مقالے میں لینے کی
ضرورت پیش آئی۔ اسی طرح ان کی تخلیقی نثر پر ان کی غیر افسانوی نثر کے اثرات کا بھی ایک مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔