Muhammad Aitisam Farooq
Muhammad Burhan
MS
Riphah International University
Private
Islamabad
Pakistan
2016
Completed
113 . : ill. 29 cm. +CD
Economics
English
Submitted in partial fulfillment of the requirement for the degree of Master of Sciences to the Faculty Of Management Sciences; Includes Bibliographical references; Thesis (MS)--Riphah International University, 2016; English; Call No: 332.1088297 AIT
2021-02-17 19:49:13
2023-01-06 19:20:37
1676711493367
ایلافِ وفا کا تجزیاتی مطالعہ
اخلاق حیدر آبادی
(شعبہ اردو ، رفاہ انٹر نیشنل یونیورسٹی ،فیصل آباد)
شاعری انسانی تخیل کا پُر جمال اور بلیغ اظہار ہے۔ شاعری میں نظم نے انسانی فکر اور ادراک کو مربوط اور پر اعتماد ہو کر آگے بڑھایا ہے۔ آرائش خیال کے لیے کبھی پابند نظم اور کبھی نظم ِ معرا کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ پھر آزاد نظم نے نسبتاً انسانی فکری جہتوں کو زیادہ بے باک انداز اور آزادی کے ساتھ پیش کیا ۔اردو شاعری کے منظر نامے میںنظم گو شعرا ابلاغ کی سطح پر پیش رفت کرتے نظر آتے ہیں۔ وقت کے ساتھ نظم کی روایت نے تخلیق کار کو ایک نئے آہنگ سے متعارف کرایا۔
شاعری کی بابت بہت کچھ کہا گیا ہے اور کہا جاسکتا ہے مگر مختصر اور جامع طور پر ہم کولرج اور شیلے کے ہم زبان ہو کر کہہ سکتے ہیں ’’شاعری تخیل کی زبان ہے‘‘ ۔کانٹ نے بہت دل نشین اندازمیں اپنی کتاب ’’انتقادِ محاکمہ(Aesthetic judgment of critique) ‘‘ میں اپنے کلیدی جملہ میں اپنے نظریہ تخیل کا خلاصہ یوں پیش کیا ہے
’’ تخیل اس مواد سے جو فطرت اس کے لیے مہیا کرتی ہے،ایک فطرتِ ثانی تخلیق کرنے والا ایک زبر دست عامل ہے‘‘(۱)
شاعر یا تخلیق کار کے پاس اظہار کے لیے جو چیز اساس بنتی ہے۔ وہ اس کا احساسِ تخیل ہے۔ ابلاغ کے لیے علامت، استعارہ ،مشاہدہ اور تجربہ تو ہوتا ہے۔ بلکہ الفاظ کے انتخاب کا کڑا فیصلہ بھی شاعر کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح نظم کا نام بلا شبہ علامت ہے۔ کسی چیز کی ماہیت نہیں ۔ شعریات کو صنف میں علامتی سطح پر وابستہ کیا جا سکتا ہے۔ حالی ؔ کا یہ قول’’ نفسِ شعر وزن کا محتاج نہیں‘‘ اب تک ایک بامعنی اور راہنما ہے۔ عبدالسمیع اپنی کتاب ’’اردو میں...