Shabana Farooq Khan
Iram Naz
MS
Riphah International University
Private
Islamabad
Pakistan
2018
Completed
54 . : ill. ; 29 cm. +CD
Management & Auxiliary Services
English
Submitted in partial fulfillment of the requirement for the degree of Master of Science to the Faculty of Management Sciences.; Includes bibliographical references; Thesis (MS)--Riphah International University, 2018; English; Call No: 658 SHA
2021-02-17 19:49:13
2023-01-06 19:20:37
1676711613232
محمد الدین فوق
محمد الدین فوق (۱۸۷۷ئ) کوٹلی ہر نرائن سیالکوٹ پیدا ہوئے۔ فوقؔ تخلص کرتے تھے۔ فوق بڑے ذہین تھے۔ طالب علمی کے زمانہ میں نظیر اکبر آبادی کی ایک مشہور نظم ’’کیا خوب سودا نقد ہے‘ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے‘‘ کا فارسی نظم میں ترجمہ کیا۔ فوق فطری شاعر تھے اور بچپن سے ہی موزوں طبع تھے۔ فوق نے ۱۸۹۲ء میں شعر کہنے شروع کئے۔(۱۵۶)
ان کا ایک ایک شعر وطن(کشمیر) کی محبت اور اسلام کے درد میں ڈوبا ہوا ہے۔ فوق پہلے شاعر ہیں جنہوں نے مستقل طور پر مسلمانِ کشمیر کی ترجمانی کرتے ہوئے دنیا کو ان کی مظلومیت سے آگاہ کیا۔
آپ کی شاعری کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح بھی تھا۔ اقبال نے ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ نظمیں لکھی ہیں۔ فوق نے بھی اسی طرح ’’بڈ شاہ کی روح سے خطاب‘‘ نظم میں کشمیریوں کی زبوں حالی کا اسی لہجہ میں رونا رویا ہے۔ فوق غزل میں داغ دہلوی اور قومی نظموں میں علامہ اقبال سے متاثر تھے۔ فوق کا شعری کلام ہندوستان کے معروف رسائل میں چھپتا رہا۔آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’کلامِ فوق‘‘ کے نام سے ۱۹۰۹ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں ۱۸۹۵ء سے ۱۹۰۱ء تک کا کلام ہے اس حصے میں غزلیں زیادہ ہیں۔ دوسرا حصہ ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۹ء تک کے کلام پر محیط ہے۔ اس حصے میں نظموں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ کلامِ فوق کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا اس کی ضخامت ۱۴۰ صفحات سے بڑھ کر ۲۴۰ صفحات تک پہنچ گئی ہے۔ اس میں پروفیسر علم الدین کا مفصل دیباچہ بھی شامل ہے۔ فوق کا دوسرا شعری مجموعہ ’’نغمہ و گلزار‘‘ کے نام سے ۱۹۴۱ء میں شائع ہوا۔ اس کی ضخامت ۱۸۴ صفحات ہے اس کا دیباچہ مولانا عبد اﷲ قریشی نے لکھا ہے۔
اگر...