Search or add a thesis

Advanced Search (Beta)
Home > In Vivo Comparative Study of Biopesticide

In Vivo Comparative Study of Biopesticide

Thesis Info

Author

Saad Tahir

Institute

Riphah International University

Institute Type

Private

City

Lahore

Province

Punjab

Country

Pakistan

Thesis Completing Year

2015

Thesis Completion Status

Completed

Page

xi, 70 . : ill ; 30 cm.

Subject

Medicine & Health

Language

English

Other

Include bibliographical reference; Riphah Institute of Pharmaceutical Science; Call No: 615.329 SAA

Added

2021-02-17 19:49:13

Modified

2023-01-06 19:20:37

ARI ID

1676711991112

Similar


Loading...
Loading...

Similar Books

Loading...

Similar Chapters

Loading...

Similar News

Loading...

Similar Articles

Loading...

Similar Article Headings

Loading...

چھوٹے قد کا بڑا آدمی

چھوٹے قد کا بڑا آدمی

قاضی سلطان محمود مرحوم کو ہم سے بچھڑے پانچ سال ہو گئے ۔میرے سیاسی استادوںمیں دو لو گ شامل ہیں ۔قاضی سلطان محمود اور سابق سینئر استاد سردار سلیم صاحب ۔جن سے نہ صرف بہت کچھ سیکھا بلکہ 1978ء میں شروع ہو نے والا مزاحمتی سیاست کا سفر ان کے ساتھ راولپنڈی اس لحاظ سے خوش قسمت شہر تھا جسے پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست میں نہ صرف نمایاں مقام حاصل رہا ہے بلکہ سردار سلیم صاحب اور قاضی سلطان محمود مرحوم جیسی بہادر قیادت ملی دونوں بائیں بازو کی ترقی پسند سیاست پر یقین رکھتے تھے ۔ان کی سوچ فکر نے میرے جیسے سینکڑوں کا رکنوں کی سیاسی تربیت کی جنہوں نے آگے چل کر جنرل ضیاء الحق کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی جنگ میں بھرپور کردار ادا کیا ۔

چھوٹے قد کا بڑا آدمی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف مزاحمتی تحریک کا ایک اہم کردار سلطان محمود قاضی۔ 1979ء بلدیاتی انتخابات کا بگل بج چکا تھا راولپنڈی میں ٹکٹوںکی تقسیم ہو چکی تھی ہمارے حلقہ میں سنا تھا کہ ٹکٹ شیخ جلیل اختر مرحوم کو ملا ہے جو پی پی پی وارڈ کمیٹی ڈھیری حسن آباد کے چئیر مین تھے ۔ایک صبح دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ملک الطاف حسین مرحوم کھڑے تھے ۔میرا ان سے کوئی تعارف نہ تھا لیکن بلدیاتی انتخابات کے بعد تو ملک صاحب میرے قریب ترین دوستوں میں شامل ہوئے ۔شاہی قلعہ تک اکٹھے گئے ۔ملک الطاف حسین مرحوم نے بتا یا کہ انہیں پاکستا ن پیپلز پارٹی نے وارڈ نمبر 5سے ٹکٹ دیا ہے ۔میں نے انہیں کہا کہ میری تو ابھی ووٹ بھی نہیں بنی میں میٹر ک کا طالب علم ہوں تو انہوں نے ہنستے ہو ئے...

مولانا طاسین اور مولانا مودودی كے نظریہ مزارعت كا تقابلی مطالعہ

Allam Muhammad Taseen and Syed Abul-ala-Maudoodi were two great scholars and thinkers of 20th century. They not only considered the economic problems but also suggested their solutions. Their view are held in high esteem by the scholarly community. In the following article, a comparative study of their views related to economy are being presented so that the world may get rid of the pros and cons of communism and capitalism. The Islamic economic system thus rises as the best and the most practical system in the world. Hereby the Muzaraat related reforms are our main focus

اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات

اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات مقالے کو چھے ابواب میں تقسیم کیا ہے جن کی تفصیل یہ ہے : پہلا باب افسانے میں اسلوب اور تکنیک کی اہمیت کے بارے میں ہے۔ اس باب کے آغاز میں افسانے کی فنی مبادیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس صنف نے مغرب میں جنم لیا۔ اس لیے اس کے اصول بھی وہیں مرتب کیے گئے۔ لیکن اس صنف کی اردو میں آمد تک ہیئت کے اعتبار سے کئی تبدیلیاں آئیں۔ اسلوب اور تکنیک کے کئی تجربات ہوئے۔ اس باب میں ان باتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں تکنیک اور اسلوب کے فنی مسائل پر بحث کی گئی ہے اور مغرب میں افسانہ نگاری کی روایت اور اس روایت کی بدلتی ہوئی صورتوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ دوسرے باب کا تعلق اردو افسانے کے دورِ اولین سے ہے۔ پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم ہمارے دو ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنی حیات ہی میں دبستان کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس طرح افسانوی نثر میں حقیقت نگاری اور رومانویت کو ارتقا کرنے کا موقع ملا۔ اسی باب میں سجاد ظہیر اور ڈاکٹر رشید جہاں کے مجموعے "انگارے" کا بھی تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس مجموعے پر مغرب کی جدید تحریکوں کے اثرات ہیں۔ اس طرح رومانیت اور حقیقت نگاری کے علاوہ جدیدیت کی مغربی روایت کا جائزہ لیا ہے۔ تیسرے باب میں اردو افسانے کو ترقی پسند تحریک کے ساتھ اور حقیقت نگاری کی مقبولیت کے محرکات کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اردو افسانے کا زریں دور ہے۔ جب سعادت حسن منٹو ، کرشن چندر، غلام عباس، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی ، راجندر سنگھ بیدی جیسے اہم افسانہ نگار سامنے آئے جن کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ترقی پسند تحریک ایک واضع منشور کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ اس منشور کا تقاضا تھا کہ جو کچھ لکھا جائے وہ حقیقت نگاری کے پیرائے میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد میں حقیقت نگاری کو خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔ لیکن حقیقت نگاری میں بھی ہر بڑے افسانہ نگار نے اپنا انفرادی رنگ پیدا کیا ۔ اس باب میں جہاں ایک طرف حقیقت نگاری کی مقبولیت کے اسباب کا جائزہ لیا ہے وہاں پر اہم افسانہ نگار کی انفرادی خصوصیات کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔ چوتھا باب ترقی پسند عہد- اردو افسانے پر مغرب کے نفسیاتی و تکنیکی اثرات کے موضوع پر ہے۔ ترقی پسند عہد میں اگرچہ حقیقت نگاری کو مقبولیت حاصل ہوئی مگر سماجی شعور کے ساتھ ساتھ ایک حلقہ ایسا بھی تھا جس نے مغربی تحریکوں اور نظریات سے کسبِ فیض کا سلسلہ جاری رکھا۔ خاص طور پر علمِ نفسیات کے اثرات بعض افسانہ نگاروں پر بہت نمایاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس باب میں مغرب کے نفسیاتی و تکنیکی اثرات کا مجموعی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاروں کے انفرادی مطالعے بھی شامل ہیں۔ پانچواں باب "آزادی کے بعد اردو افسانہ" کے موضوع پر ہے۔ تقسیم ہند کے بعد فسادات کے موضوع پر بہت لکھا گیا۔ یہ المیہ جس نے انسانیت کے اخلاقی رویوں کی دھجیاں اڑا دی تھیں اپنے ساتھ کئی کہانیاں لے کر آیا۔ اس عہد میں افسانہ نگار کے رویے اور طریقہ اظہار کی جو صورتیں سامنے آئیں۔ ان کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فسادات کے زمانے میں معیاری افسانہ تعداد میں کیوں کم ہے۔ علاوہ ازیں فسادات کے بعد ہجرت کے کرب اور رومانویت کابھی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ساٹھ کی دہائی میں جدید افسانے کا آغاز ہوا اسی باب میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جدید افسانے کے محرکا ت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ چھٹا باب جدید افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے نئے تجزیات کے مجموعی جائزے اور انفرادی مطالعوں پر مشتمل ہے۔ اس باب میں نئے افسانے کے فکری پس منظر، علامتی نظام اور اس کے فنی لوازم، اسلوب اور تکنیک کی سطح پر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں ، ابلاغ کے مسائل ، نئے زاویہ نظر کی آمد اور علامتی افسانے کی مقبولیت کے محرکات کو تفصیل سے جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساٹھ کے بعد ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں بے شمار نام ایسے ہیں جو اپنا انفرادی رنگ رکھتے ہیں اس باب میں منتخب جدید افسانہ نگاروں کی تکنیک اور اسلوب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی انفرادیت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔