افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
قوم کسی پتھر کا نام نہیں ہے ،کسی ویرانے میں کھڑے درخت کا نام نہیں ہے کسی بہتی ہوئی ندی کا نام نہیں ہے، کسی لہلہاتے ہوئے کھیت کا نام نہیں ہے، قوم افراد کے مجموعے کو کہتے ہیں ۔قو میں بنتی ہیں اور قومیں بگڑتی بھی ہیں، قو میں سنورتی بھی ہیں اور قومیں بر بادبھی ہوتی ہیں کبھی قو میں تنزلی کا شکار ہوتی ہیں اورکبھی ترقی کی معراج پر فائز ہوکر دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل کرتی ہیں۔
اقوام کے بگاڑنے اور سنوارنے میں افراد کا ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ فرد قوم کی ایک اکائی ہے، اکا ئی ایک جُز ہوتا ہے اور جُز سے اجزاء بنتے ہیں اور پھر یہ اجزاء مل کر ایک قوم کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ اقوام کی قسمت اور تقدیر افرادہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، اگر افراد پڑھے لکھے ہیں تو قوم پڑھی لکھی ہے اور اگر افراد ان پڑھ اور گنوار ہیں توپھر قوم بھی اسی طرح کی ہوتی ہے۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس مِصْرَعَہَ میں اپنی قوم کی تقدیر کے بارے میں اظہارِ خیال اس طرح کرتے ہیں کہ اگر ایک شخص ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھار ہے اور بے عملی کا شکار ہو تساہل اور غفلت اس کی عادت ثانیہ بن چکی ہو تو وہ اپنی قوم کے لیے کوئی قابلِ قدر خدمات سرانجام نہیں دے سکتا۔ اس نے قوم کی تقدیر کو بدلنے کے لیے اپنارول ادا کرنا ہے۔ کوئی فلکی مخلوق نہیں آئے گی کہ اس کے حالات بدل دے۔ اس لیے خودتگ و دو کرنا پڑے گی ، بستر استراحت کو چھوڑنا پڑے گا، زرق برق لباس زیب تن کر کے نمودونمائش کے بت کو پاش پاش کرنا پڑے گا، خلوص دل سے اپنے ملک وقوم کے لیے...
In the Holy Quran several names of different colours have been described, denoting various meanings. Colour is the natural phenomenon of the universal power. To understand the colours properly, Our ancestors have undertaken their deep observation vehemently and passionately. Each colour has its own distinctive feature. The Yellow colour has been interpreted as a pleasure giving one. Similarly, if white colour, on the one hand is the metaphor for the dawn’s light, on the other hand it gives the meaning of happiness and on turning of one blind. Black colour is the natural phenomenon of the darkness of night and mourning same in the case of Green, which are used in the Holy Quran for denoting different meaning. White colour is the colour which possesses peculiarities greater in quantity than all of the other colours followed by the derivation of some Islamic Provisions also. In this article efforts have been made to present a discourse regarding the various kinds of colours discussed in the Holy Quran diagnosing the same from different angles.
س تحقیقی مطالعہ سے سامنے آنے والے نتائج کا مجموعی خلاصہ یہ ہے کہ اردو متن کے کمپیوٹری تعاملات کو ممکن بنانے میں عالمی سطح پرجس قدر ترقی ہوگی، اردو ڈیجیٹل کتب اتنے ہی بہتر معیار کے ساتھ تیار کی جاسکیں گے۔ اردو متن کے حوالے سے تحقیق تین سطح پر جاری ہے: تجارتی ادارے، علمی و تحقیقی ادارے، اور افراد۔ ان تینوں گروہوں کا باہم عدم تعلق اردو ڈیجیٹل کتب کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ علاوہ ازیں، اردو متن کے کمپیوٹری تعامل میں اس وقت بنیادی رکاوٹ یہ ہے کہ اردو خط نستعلیق میں لکھی جاتی ہے، اور تا حال کمپیوٹر کے لیے ایسا کامیاب سوفٹ وئیر نہیں بنایا جاسکا جو اس خط کو تصویر کے بجائے،تحریرکیصورتمیںایکایکحرفکی الگشناختکرسکے۔اسبنیادیمسئلہکےحلکے امکانات اس لیے روشن ہیں کہ دنیا بھر میں ، اردو سے بھی زیادہ پیچیدہ زبانوں کے ’عکس نوشت‘سوفٹ وئیر کے لیے تحقیق جاری ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ہی کے دیگر ذیلی شعبوںجیسے مصنوعی ذہانت وغیرہ میں تیزی سے ترقیہورہی ہے اور اسے مختلف زبانوں کے لیے مشینی ترجمے ،عکس نوشت اور متن کے صدا میں تبدیلی جیسے استعمالات کے لیے کام میں لانے کے لیے تجربات جاری ہیں۔ ایسے تمام تجربات بالواسطہ اردو کمپیوٹری تعاملات کے لیے بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ کتابی صنعت سے وابستہ افراد اور اداروں میں اردو ڈیجیٹل کتب کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیاں،اوراسنئےذریعےکےامکاناتسےناواقفیت،اردوڈیجیٹلکتبکےراستےمیںایکبنیادی رکاوٹ ہے۔ ناشرین کی اپنی علمی سطح، تربیتی معیار، کاروباری تجربہ اور عالمی کاروباری رجحانات سے عدم واقفیت ایسے عوامل ہیں جو اردو زبان میں ڈیجیٹل کتب کے حوالے سے تجارتی سطح پر تجربات کرنے کے اقدام میں حائل ہیں۔ کتابی صنعت سے وابستہ افراد کا بہتر اور نمائندہ تنظیمی ڈھانچہ جو کتاب سے متعلق دیگر گروہوں جیسے لائبریرنز، حکومتی اداروں، ترویج خواندگی سے متعلق عالمی اداروں اور تنظیموں سے رابطہ کا اہل ہو، یقیناً اردو زبان میں کتاب اور ڈیجیٹل کتاب کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان میں اردو زبان میں کتاب کی تیاری، طباعت اور فروخت کا موجودہ نظام اور اس سے وابستہ افراد اور اداروں کی مالی، تکنیکی اور علمی اہلیت ، تجارتی سطح پر اردو دیجیٹل کتاب کے فروغ اور اشاعت سے کافی دور ہے۔ سماجی سطح پر حکومتی متعلقہ اداروں کا اردو ڈیجیٹل کتب کی اہمیت اور وجود کو تسلیم نہ کرنا، یا اسے محض کاغذ پر شائع ہونے والی کتب کا عکس سمجھنا، وہ رویہ ہے جس سے دیگر متعلقین براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ قومی کتب خانہ،اسلام آبادمیں حکومتی سطح پر اردو میں ڈیجیٹل کتب کو ذخیرہ کا حصہ بنانے کی اہلیت ہے اور نہ ہی اس سے متعلق دستاویزات ’قومی کتابیات ‘کا حصہ بنائی جاتی ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی اب تک کی مساعی کاغذ پر شائع ہونے والی کتب سے متعلق ہیں؛اردو سائنس بورڈ،ادارہ فروغ قومی زبان(مقتدرہ قومی زبان)، اکادمی ادبیات اور مرکزی و صوبائی وزارت تعلیم میں سے کوئی بھی ادارہ اب تک نہ ڈیجیٹل کتب کے حوالے سے کوئی پالیسی تیار کرپایا ہے ،اور نہ ہی اس کے فروغ کے لیےکوئی اقدام کیا گیا ہے۔ حکومتی اداروں کا یہ رویہدرحقیقت اُن بڑی سماجی رکاوٹوں کا عکاس ہے جہاں پاکستان بھر میں خواندگی کی انتہائی کم شرح، اور اقتصادی حالت کی زبوں حالی سے ، کتاب اور مطالعہ کی کسی بھی صورت کا فروغ، واضح ترجیحی پالیسی اور اقدامات کا طالب ہے۔ ملک میں توانائی کا بحران اور صارفین کی کمی کی وجہ سے تجارتی ادارے ڈیجیٹل صورت میں اردو کتاب شائع کرنے کو ناممکن تجربہ خیال کرتے ہیں۔ پاکستان میں اردو کتب شائع کرنے والے ناشرین کا موجودہ طریقہ تجارت یہ ہے کہ کتاب کو کم سے کم تعداد( بالعموم ایک ہزار)میں شائع کرکے اسے ملک بھر کے یقینی خریداروں تک پہنچا یا جائے ، اورکتاب کے اس منافع کو مد نظر رکھ کر کاروبار کو پھیلایا جائے ۔ اس طریقہ کار کو سامنے رکھتے ہوئے ، اردو میں ڈیجیٹل کتب کے فروغ کے لیے یہ عملی اقدام حکومتی پالیسی کا منتظر ہے، کہ کتاب کی صنعت سے وابستہ بڑے ناشرین کو یہ ضمانت دی جائے کہ ان کیتیار کردہ اردو ڈیجیٹل کتاب ،حکومتی اور علمی اداروں میں کم از کم تعداد میں خریدی جائے گی۔ ان ڈیجیٹل کتب سے جامعات اور لائبریریوں میں استفادہ کیا جائے تو کاپی رائٹ کے خلاف ورزی سے ممکنہ نقصان کا خوف ناشرین سے جاتا رہے گا اور ملک میں تجارتی سطح پر اردو ڈیجیٹل کتب کا فروغ ممکن ہوگا۔ غیر تجارتی اور علمی سطح پر اردو زبان میں ڈیجیٹل کتب عالمی اور ملکی ادارے اور تنظیمیں بڑے پیمانے پر فروغ دے رہی ہیں۔ اس عمل کو تیز کرنے کے لیے مصنفین اور ناشرین کو اردو کمپیوٹر کی بنیادی، دو ماہ کی تربیت دینا، جس سے وہ کتاب کمپیوٹر پر تیار کرنے اور اسے عالمی سطح پر موجود ویب سائٹس جیسے ’انٹرنیٹ آرکائیو ‘پر اپ لوڈ کرنے کے اہل ہوں سکے، یقیناً بہت بڑے پیمانے پر علمی خزانوں کی تحفیظ اور ترویج کا باعث بن سکتا ہے۔ اس تحقیق کے دوران اردو زبان میں کتاب اور ڈیجیٹل کتاب کے فروغ میں مزاحم سب سے بنیادی عنصر کی نشاندہیاس موضوع پر تحقیق کے عدم وجود کے طور پر کی جاسکتی ہے۔ کتاب، عادات مطالعہ، معیاری بندی، طباعتی قوانین اور اس جیسے کسی بھی موضوع پر عملاً تحقیق اور اعداد و شمار دستیاب ہی نہیں ہیں۔ ما سوائے چند جامعات کی سندی تحقیق کے، جو ایم فل، پی ایچ ڈی کی سطح پر طالب علمانہ تحقیق ہے، اردو کتاب کے حوالے سے تجارتی یا علمی حکومتی سطح پر کوئی تحقیقی کوشش نظر نہیں آتی۔ اگر خواندگی، تعلیم، آگاہی اور طباعت سے متعلق عالمی و ملکی تنظیمیں اور ادارے، اردو زبان میں کتاب کے حوالے سے تحقیقی منصوبے ترتیب دیں ، تو یقیناً یہ اردو ڈیجیٹل کتب کی راہ میں حائل بہت بڑی عملی مشکل کا دور کرنے کا باعث ہوگا۔ کسی بھی زبان میں کتاب کی دو بنیادی وظائف ،علم اور معلومات کی حفاظت اور ان کا ابلاغ ہوتا ہے۔ یعنی کتاب زمانی و مکانی محدودات سے ماورا ہوکر اپنے اور اپنے عہد کے بعد کے انسانوں تک ترسیل علم کا ذریعہ ہوتی ہے۔ باب اول کے حصہ)(1.1.4میں یہ تخمینہ دیا گیا ہے کہ دنیا میں کل محفوظ رہ جانے والی کتب کی تعداد 13کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اردو زبان کی اولین کتاب 1743ء میں شائع ہوئی۔ تب سے موجودہ برس )(2018تک، 275برس میں اگر ہر برس دس ہزا ر کتب کی اوسط تسلیم کرلی جائے تب بھی اردو کی کل کتب کی تعداد محض 27لاکھ 50ہزار تکپہنچتی پاتی ہے۔ اس تعداد میں قلمی نسخے ،اہم جرائد اور مطبوعات کو شامل کرکے ، اسے دگنا بھی تسلیم کرلیا جائے تو ، کل تعداد 50لاکھ کتب بنتی ہے۔ اس باب کے آغاز میں،بریوسٹرکیہلکےنقلکردہقولکومعیاربنایاجائےتواردوکیتمامکتبکو،اُنکیجمعآوریکے اخراجات کو نکال کر، محض پانچ میل لمبی ہائی وے کی تعمیر کی لاگت سے ڈیجیٹل صورت دی جاسکتی ہے۔ یہ تمام اعدادو شمار اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی رفتار اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اگر ریاستی سطح پر درست فیصلہ سازی کی جائے تو محض ایک عشرے بعد ،اردو کی تمام کتب کسی بھی صارف کو موبائل فون اور لیپ ٹاپ میں فراہم ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ علم کے اس قدر وسیع خزینے کے باعث ، تحقیق اور علم کی ترقی اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی ترقی اس کا لازمی نتیجہ ہوگا۔ علاوہ ازیں ، اردو میں شائع ہونے والی کتب اگر تجارتی بنیادوں پر تیار اور فروخت کی جاسکیں، تو دنیا بھر میں اردو قارئین کم قیمت اور بہتر معیار اور رفتار پر کتب کے وسیع خزینے سے استفادہ کے اہل ہوسکیں گے۔اس سے نہ صرف علمی معیار میں اضافہ ہوگا ،بلکہ خود اردو زبا ن کی ترقی یقینی ہوگی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث ان تمام خوش گوار امکانات کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے بنیادی شرط ، اردو ڈیجیٹلکتب کی اشاعت میں حائل رکاوٹوں کا ادراک اور ان کو دور کرنے کے عملی اقدامات ہیں۔ زیر نظر مطالعہ اس اہم علمی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تحقیق کے طالب علم کی حیثیت میں، اردو ڈیجیٹل کتب کی راہ میں حائل تکنیکی، پیشہ ورانہ اور سماجی رکاوٹوں اور ان کی نوعیت کے تعین کی .ایک غیر جانبدارانہ ،علمی اور تحقیقی کوشش تھی