قاری محمد مشتاق
ثناء اللہ حسین
Allama Iqbal Open University
Public
Islamabad
Pakistan
2015۔
Completed
266.ص
Islam
Urdu
Call No: 297.07 م ش پ; Publisher: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،
2021-02-17 19:49:13
2023-02-17 21:08:06
1676714447740
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
Mphil | Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Riphah International University, Faisalabad, فیصل آباد | |||
PhD | The University of Lahore, لاہور | |||
PhD | University of Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | University of the Punjab, لاہور | |||
PhD | University of Karachi, کراچی | |||
PhD | The University of Lahore, لاہور | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
PhD | University of Karachi, کراچی | |||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
PhD | The Universiry of Lahore, Lahore, Pakistan | |||
Mphil | Hazara University Mansehra, مانسہرہ | |||
Mphil | Hazara University Mansehra, مانسہرہ | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, Bahawalpur, Pakistan | |||
PhD | University of Karachi, Karachi, Pakistan | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
MA | Minhaj University Lahore, لاہور | |||
MA | Riphah International University, Faisalabad, فیصل آباد | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
بے یقین بستیوں میں
ناطق کو ادبی سفر کا آغاز کیے تھوڑا ہی عرصہ ہوا جب انہوں نے شاعری کی اس پہلی کتاب سے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔یہ ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے اس مجموعہ کلام میں انہوں نے کچھ ایسی نظمیں لکھی ہیں جن کو پڑھ کربعض اوقات انسان پر خوف طاری ہوجاتا ہے،ہر نظم میں ایک نادر بات ہے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کتاب کی پہلی نظم کا عنوان ’’ریشم بننا کھیل نہیں‘‘اپنے آپ میں ایک بہت گہرائی میں لے جانے والا مطلب رکھتا ہے۔جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ شاعری کرنا آسان نہیں۔ان کی ایک نظم جس کاپہلا مصرع کچھ یوں ہے:
میں بانسوں کے جنگل میں ہوں جن کے نیزے بنتے ہیں
نیزہ کی تعریف،مین اگر ہم سمجھیں تو بات سیدھی دل کو لگتی ہے یعنی بانسوں کو چھیل کر ہم نیزے بناتے ہیں۔بانسوں کے جنگل کو ناطق نے انسانوں سے تشبیہ دی ہے دنیا انسانوں کا جنگل ہے، جہاں طرح طرح کے لوگ رہتے ہیں۔یہ چاہیں تو بانس سے نیزہ بناڈالیں یا پھر قلم۔ایک اور مصرع جس میں وہ افسوس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں ساری بات کھل کرسامنے آجاتی ہے اور واقعی احساس ہوتا ہے یہ دنیا کالے ناگوں سے بھری پڑی ہے جہاں ان ناگوں میں رہ کر اچھے لوگ اچھائی کا دم بھرنے والے بھی کالے ناگ بنتے جاتے ہیں بہت کم لوگ ہیں جو ان کالے ناگوں سے خود کوبچا پاتے ہیں۔
ناطق کی نظم کا آخری مصرع بھی یہی ہے کہ’’لیکن جنگل بانسوں کاہے جن کے نیزے بنتے ہیں۔‘‘یہاں صرف ناگ رہتے ہیں اور ان ناگوں سے مصنف کو کوئی امید نہیں کہ وہ ان سے قلم بنائیں گے۔جب ان...