فصل پنجم: آیاتِ استفہام میں فہمِ عقیدہ آخرت (تفسیر تدبرِ قرآن کی روشنی میں تخصیصی مطالعہ)
حیات بعد الممات کا سوال ایک فلسفیانہ سوال نہیں ہے بلکہ اس کا ہمارے عملی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے اگر انسان کو جوابدہ کا احساس نہ ہو تو وہ اپنے اعمال پر کبھی بھی محاسبہ کرنا پسند نہیں کرے گا اس کے اخلاقی تصورات ہی بدل جائیں گے اس کا پورا اخلاقی نظام خود غرضی، بے حسی اور نفسانیت کی بنیاد پر تعمیر ہوگا اس کے برعکس اگر اعمال کی جوابدہی کا تصور ہوگا تو وہ اچھے یا برے انجام کے باعث نتیجے پر غور کرے گا۔جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں انکے بارے میں قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے:
"وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا"۔[[1]]
"اور انہوں نے کہا کہ جب ہم زمین میں گم ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا ہونگے؟"
اس آیت میں منکرین قیامت کی روش بیان کی جا رہی ہے کہ وہ لوگ بطور تعجب کے کہتے ہیں کہ ہم مر جائیں گے ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی ہمارا وجود مٹی میں مل جائے گا تو دوبارہ کیسے پیدا ہو سکتے ہیں ؟ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ جو خالق انکو بغیر کسی ماڈل کے پہلی بار تخلیق کرنے پر قادر ہے تو دوبارہ پیدا کیوں نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لئے تو دوبارہ پیدا کرنا بہت ہی آسان بات ہے ۔
"اسلام نے وضاحت فرما دی ہے کہ کارخانہ ہستی کا حدوداربعہ صرف وہی عالم رنگ و بو نہیں ہے جو تمہارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے میدانوں ، کھلیانوں، دریاؤں ، پہاڑوں ،آبشاروں، بادلوں ، آسمان...
The word pricing is one of the four Ps of Marketing Mix (Product, Price, Place and Promotion) and the most important and attractive one as it bears profit and income for producer and employee. Using various pricing strategies, a rate is fixed for a product or service in order to get suitable profit. If it is not taken care, the business or service may cause you loss financially. Like this term is used in production, it is also practiced in services in order to determine inflation rates and fixing daily wages and monthly salaries, for which various pricing strategies and arithmetic formulas are used. In this paper I have come up with introduction of Pricing in Modern and Islamic perspective and then limiting the topic to pricing in services, I discussed various Shariah issues of Pricing in services in the light of Quran and Sunnah.
مقدمہ
دین فہمی کے لیے جہاں قرآن و حدیث کا علم کلیدی کردار اداء کرتا ہے وہیں حدیث فہمی میں درایت حدیث ایک بنیادی امر ہےاور درایت حدیث اس وقت تک ممکن نہیں جب تک علم اسباب ورودِ حدیث،علم فقہ الحدیث ، علم مشکل الحدیث کے ساتھ ساتھ علم ناسخ و منسوخ الحدیث کا فہم حاصل نہ ہو،بلکہ حضرت ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
»مر علی علیٰ قاص فقال أتعرف الناسخ من المنسوخ؟ قال لا قال ھلکت و أھلکت«( )
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گزر ایک قصہ گو کے پاس سے ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا تمہیں ناسخ و منسوخ کا علم ہے انہوں نے عرض کیا نہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو خود بھی ہلاک ہوا اور ہلاک کررہا ہے‘‘۔
یعنی کسی بھی فن کے ناسخ و منسوخ کے علم کے بنا اس فن میں جد وجہد کرنا ہلاکت کے مانند ہے۔ کیونکہ اگر وہ ناسخ و منسوخ کے علم سے عاری رہتے ہوئے منسوخ روایت کی ترویج کرتا رہے تو یہ اس کے لیے دارین میں محرومی کا باعث ہو گا۔
یہاں یہ اشکال دور کرنا بھی ضروری ہےکہ نسخ اور نظر ثانی ہم معنیٰ نہیں بلکہ اس میں واضح فرق موجود جیسے نسخ میں ایک حکم کو دوسرے حکم سے بدل دیا جاتا ہے مثال کے طور پر پہلے ایک چیز جائز تھی پھر ناجائز قرار پا جاتی ہے یا اس کے برعکس ہو تاہے، البتہ نظر ثانی یہ ہے کہ آدمی پہلے ایک کام کا ارادہ کرے پھر اس کو ترک کر دے مثال کے طور پہ ایک آدمی سوچے کہ فلاں شخص کی طرف جاؤں پھر سوچے کہ اس کے پاس نہ جانا بہتر ہے تو اپنے فعل سے رک جائے یہ صرف انسانوں کے ساتھ ہی پیش آتا ہے اس فرق کی وضاحت یوں ہے کہ نسخ میں شارع کے علم میں یہ بات موجود ہے کہ جو حکم دیا جا رہا ہے وہ کتنے عرصے پہ محیط ہو گا جبکہ نظر ثانی کرنے واے کو اس کا علم نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے پہلا کام بھی اٹل ہی ہوتا ہے ۔( )
ایک اور اشکال کی وضاحت کر دوں کہ نسخ کا وجود حضور نبی آخر الزمان ﷺ کی اختراع نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے قبل والے سماوی ادیان میں اس کے وجود کے شواہد موجود ہیں جیسا کہ خالق کائنات اللہ رب العزت نے لاریب کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
﴿فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ وَ بِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ کَثِیرًا ﴾ ( )
’’تو یہودیوں کے بڑے ظلم کے سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں کہ اُن کے لئے حلال تھیں ، اُن پر حرام فرمادیں اور اس لئے کہ انہوں نے بہتوں کو اللہ کی راہ سے روکا۔‘‘
تو ثابت ہوا کہ نسخ یہودیوں کے ہاں بھی موجود تھا کہ حلال چیزوں کی حلت کو منسوخ کرنے کے لیے حکم حرمت نازل ہوا۔
حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم مشکل ترین مہم ہے۔ زہری کہتے ہیں، ’’حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم حاصل کرنے کی کوشش نے اہل علم کو تھکا دیا ہے۔‘‘اس علم کے سب سے مشہور ماہر امام شافعی ہیں۔ وہ اس کام میں ید طولی رکھتے تھے اور دوسروں کی نسبت اس میدان میں بہت آگے تھے۔ امام شافعی جب مصر چلے گئے تو امام احمد بن حنبل نے ابن وارہ سے کہا، ’’کیا آپ نے شافعی کی کتب لکھ رکھی ہیں؟‘‘انہوں نے کہا،’’جی نہیں۔‘‘ امام احمد کہنے لگے، ’’یہ تو آپ نے بڑی غلطی کی۔ ہم میں سے کوئی مجمل و مفسر اور حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم نہیں رکھتا تھا۔ جب ہم امام شافعی کے ساتھ بیٹھنے لگے تو ہمیں یہ چیزیں معلوم ہوئیں۔‘‘( )
اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر علامہ حازمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق کتاب الاعتبا ر میں لکھتے ہیں کہ
’’ثم ھذا الفن من تتمات الاجتہاد ، اذا الرکن الاعظم فی باب الاجتہاد معرفۃ النقل و من فوائد معرفت النقل الناسخ والمنسوخ ‘‘ ( )
’’یہ اجتہاد کا بھی تتمہ ہے کہ اجتہاد کے باب کا اہم رکن دلائل نقلیہ کی معرفت ہے اور دلائل نقلیہ کی پہچان ناسخ و منسوخ کے علم کے بغیرنامکمل ہے۔‘‘
اتنا اہم اور دقیق موضوع اس پر اردو زبان میں اتنا کام موجود ہی نہیں تھاجو قارئین و محققین کے لیے کافی و وافی ہو تو راقم نے اس موضوع پر ایم فل کی سطح کا مقالہ لکھ کر آئندہ آنے والے محققین کے لیے ایک راستہ اور میدان مہیا کیا ہے البتہ اس موضوع کا ایک اہم پہلو تاحال تشنہ ہے جو کہ دوران تحقیق واضح ہوا اور وہ ہے اصولیین کی ابحاث ،میرا عنوان چونکہ علم حدیث کی حدود میں تھا جس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، آخر میں بارگاہ لم یزل میں دعا گو ہوں کہ وہ اس کو قبول فرما کر میرے لیے ذریعہ نجات بنائے۔
مقالہ نگار
محمد حسنین رضا