آہ! مولوی نور عظیم ندوی
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے لائق فرزند اور ہونہار استاد مولوی نور عظیم ندوی چند ماہ کی علالت کے بعد وفات پاگئے، اِناﷲ وَ اِنا اِلَیہ رَاجِعُون۔
وہ دارالعلوم سے فراغت کے بعد مزید تعلیم کے لیے مصر گئے، اردو کی طرح عربی لکھنے اور بولنے کی اچھی مشق تھی اور درس و تدریس کے ساتھ ہی تقریر و تحریر میں بھی اپنا جوہر دکھاتے تھے، جلسوں کی نظامت بڑی خوبی اور سلیقہ سے کرتے تھے، جس سمینار کی کاروائی وہ چلاتے وہ ضرور کامیاب ہوتا۔
پڑھنے لکھنے کا اچھا ذوق تھا اور اسی میں ان کا سارا وقت گزرتا، ندوۃ العلماء سے شائع ہونے والے اردو اور عربی جرائد میں ان کے مضامین وقتاً فوقتاً چھتے تھے۔ ایک زمانہ میں ندائے ملت کے عملاً وہی اڈیٹر تھے، تعلیم اور دوسرے موضوعات پر اس کے خاص نمبر بھی نکالے، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کی سرپرستی میں رابطہ ادب اسلامی کا قیام عمل میں آیا تو اس کے روح رواں مولانا سید محمد رابع ندوی کے یہی دست راست اور رابطہ کے ترجمان کے ایڈیٹر بھی تھے۔ ان کے پاس بعض اشخاص اور اکیڈمیوں کے مسودے تبصرے یا اصلاح کے لیے آتے تھے جن کو بڑے غور و توجہ سے پڑھتے، تحریر کی خوبیوں اور خرابیوں پر ان کی نظر فوراً پڑتی۔ اس معاملہ پر مولانا علی میاں مدظلہ بھی ان پر اعتماد کرتے تھے۔
ان کا وطن ضلع بستی تھا اور وہ مسلکاً اہل حدیث تھے لیکن ندوۃ العلماء میں شیرولشکر کی طرح گھل مل گئے تھے، بڑے خاموش طبع، کم سخن، خلیق اور متواضع تھے، ان کی عمر پچاس (۵۰) کی رہی ہوگی، آئندہ ان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن ابھی اپنی چمک دمک بھی نہیں دکھانے پائے تھے کہ وقت موعود آگیا۔
خوش درخشید ولے...
ركزت الدراسة على التسويق الداخلي بإعتباره يهتم بصورة أساسية بالعملاء الداخليين من موظفين وعاملين من خلال تحقيق رغباتهم ومطالبهم، لضمان الوصول لأفضل حالات الرضا، وبالتالي أجود أداء ممكن. هدفت الدراسة لمعرفة العلاقة بين التدريب والرضا الوظيفي، ومعرفة تأثير تمكين العاملين على تحقق الرضا الوظيفي، كذلك معرفة مدي وجود ارتباط بين فرق العمل و تأثير الدعم الإداري على الرضا الوظيفي. واتبعت الدراسة المنهج الوصفي التحليلي، والتاريخي، بالإضافة للمنهج الإحصائى. من أهم نتائج الدراسة إن عدم ملائمة ومواكبة التسويق الداخلي للبيئة السودانية قد يساهم فى قلة الاهتمام بتحقق الرضا الوظيفي. وأوصت الدراسة بالإهتمام بملائمة ومواكبة أساليب التسويق الداخلي للبيئة السودانية للمتغيرات الخارجية لزيادة الرضا الوظيفي وبالتالي ضمان كفاءة الأداء.
The poor availability of high quality feedstuff and consistent use of abundant low quality dry roughages as an animal feed are the major constraints in the development of livestock sector in Pakistan. For an efficient exploitation of available crop residues like wheat straw, biotechnological methods along with solid state fermentation technology using Arachniotus sp. were employed to upgrade its nutritive value in laboratory and on large scale at farm. Thus at both levels, addition of salts (MgSO4.7H2O, CaCl2, KH2PO4 andurea) and industrial residues (molasses, rice polishing and corn steep liquor) highly increased the crude protein contents and decrease the neutral detergent fiber, acid detergent fiber and acid detergent lignin in the fermented wheat straw. It was demonstrated that Arachniotus sp. are a potential alternative fungi that on addition of economical by-products provide more practical and environmental-friendly approach for enhancing the nutritive value of wheat straw on large scale at farm level. Moreover, the biological trial of this treated wheat straw in Nili Ravi male buffalo calves considerably increased the dry matter intake, daily weight gain, improved feed conversion ratio, an enhanced feed economics and nutritive digestibility. Hence, the current observations highly endorse the use of these economical by-products for cheap biomass production from low quality dry roughages and it was recommended to add this improved feed in livestock ration for an enhanced growth performance.