مولانا عبدالباری ندوی
افسوس ہے مولانا عبدالباری ندوی کاگزشتہ مہینہ ایک طویل علالت کے بعد ۸۲برس کی عمر میں ان کے وطن لکھنؤ میں انتقال ہوگیا۔ مولانا کے نہایت ذہین اور طباع ہونے کی دلیل اس سے زیادہ اورکیاہوسکتی ہے کہ ان کی اصل تعلیم قدیم طریقہ کے مطابق عربی اورفارسی کی تھی اور انگریزی غالباً ہائی اسکول تک پڑھی تھی لیکن اپنے ذاتی مطالعہ اورشوق سے انھوں نے انگریزی میں اتنی استعداد بہم پہنچائی کہ اولاً فلسفۂ یورپ اورثانیاًسائنس کا مطالعہ کرسکیں۔فلسفہ سے انھیں خاص مناسبت تھی، چنانچہ اس میں ایساکمال حاصل کیا کہ برکلےؔ،برگسانؔ اورڈیوڈ ہیوم پر انھوں نے کتابیں لکھیں اور ان کی بعض کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اورنہ صرف یہ بلکہ عثمانیہ یونیورسٹی میں پہلے فلسفہ کے لیکچرر اورپھراس کے ریڈر مقرر ہوئے۔ اسی زمانہ میں سیرت النبیؐ مصنفہ مولانا سید سلیمان ندوی کی جلدسوئم کے قدیم ایڈیشن میں مرحوم نے معجزات پرجو ایک باب لکھا تھا وہ زبان وبیان اوراستدلال و استنتاج کے اعتبار سے ایک نہایت اہم مقالہ کی حیثیت رکھتاتھا۔
طبع سلیم اگر رہنما نہ توفرط ذہانت اورفلسفہ کے ساتھ انہماک وتوغل بسا اوقات گمراہی کا سبب ہوجاتے ہیں، چنانچہ مرحوم کے ساتھ یہی ہوا، زندقہ والحاد کا شکار ہوگئے۔ ایک مدت کے بعد جب مولانا تھانوی سے بیعت ہوئے تو فلسفہ کا ردعمل اس شکل میں ہوا کہ مذہب کارہبانی تصور غالب آگیا، غرض کہ وہ زمانہ میں ع
اے روشنیٔ طبع توبرمن بلاشُدی
کامصداق رہے۔عملاً بڑے صالح،نیک،متقی اورپرہیز گار،زاہد وعابد، شب زندہ دار اوراخلاقی اعتبارسے بڑے شگفتہ طبع،بذلہ سنج وملنسار تھے۔مولانا شبلی کی تعلیم و تربیت نے اکابرعلماء وفضلا اورنامور ارباب قلم کی جو عظیم نسل پیداکی تھی، مولانا اس کی آخری یادگار تھے۔ ان کی آخری تصنیف جوبڑی معرکۃ الآرا ہے ’’مذہب و سائنس‘‘ ہے۔اﷲ تعالیٰ لغزشوں اورخطاؤں کومعاف فرمادے اورانھیں مغفرت و بخشش کی...
هدفت هذه الدراسة إلى التعرّف على علاقة التفكير الإستراتيجي بالأداء الوظيفي في وزارة التربية والتعليم الفلسطينية ومديريّاتها، إضافة إلى التعرّف إلى واقع ممارسة أبعاد التفكير الإستراتيجي في الوزارة، ومعرّفة مستوى الأداء الوظيفي في الوزارة، كما تمثلت مشكلة الدراسة في ندرة الدراسات والبحوث التطبيقية التي تتناول التفكير الإستراتيجي ومستوى الاهتمام به وعلاقته بالمتغيرات الأخرى، خاصة في القطاع العام في فلسطين، ولتحقيق أهداف الدراسة استخدم المنهج الوصفي التحليلي، واستخدمت الإستبانة أداة لجمع البيانات اللازمة من مجتمع الدراسة وعدده 550 موظفًا، وقد اعتمدت العينة العشوائية الطبقية النسبية ، وقد توصلت الدراسة إلى مجموعة من النتائج أهمّها أنّ درجة تطبيق موظفي الإدارة العليا في وزارة التربية والتعليم للتفكير الإستراتيجي متوسطة، حيث بلغت نسبة تطبيق موظفي الإدارة العليا للتفكير الإستراتيجي (61.40%)، وأنّ مستوى الأداء الوظيفي لموظفي الإدارة العليا جاء بدرجة مرتفعة وبنسبة تقييم بلغت (70.8%) ، كما وتبين وجود علاقة طردية ذات دلالة احصائية بين تطبيق التفكير الإستراتيجي ومستوى الأداء الوظيفي في وزارة التربية والتعليم الفلسطينية. وفي ضوء النتائج التي توصلت إليها الدراسة، قُدمت مجموعة من التوصيات أبرزها على وزارة التربية والتعليم الفلسطينية تبني ثقافة التفكير الاستراتيجي ونشرها بين العاملين في كافة المستويات ومنحنهم صلاحيات تمكنهم من ممارسة التفكير الاستراتيجي. كما وعليها تعزيز العاملين ذوي الأداء الوظيفي المرتفع وتحفيزهم باستمرار ورصد احتياجاتهم وتدريبهم والذي ينعكس بشكل ايجابي في تحقيق أهداف وزارة التربية والتعليم الفلسطينية. الكلمات المفتاحية: التفكير الاستراتيجي ، الاداء الوظيفي ، التعليم في فلسطين
A labeling of a graph is a mapping that carries some set of graph elements into numbers (usually positive integers). An (a, d)-edge-antimagic total labeling of a graph, with p vertices and q edges, is a one-to-one mapping that takes the vertices and edges into the integers 1, 2, . . . , p + q, so that the sums of the label on the edges and the labels of their end vertices form an arithmetic progression starting at a and having difference d. Such a labeling is called super if the p smallest possible labels appear at the vertices. This thesis deals with the existence of super (a, d)-edge-antimagic total labelings of regular graphs and disconnected graphs. We prove that every even regular graph and every odd regular graph, with a 1- factor, admits a super (a, 1)-edge-antimagic total labeling. We study the super (a, 2)- edge-antimagic total labelings of disconnected graphs and present some necessary conditions for the existence of (a, d)-edge-antimagic total labelings for d even. The thesis is also devoted to the study of edge-antimagicness of trees. We use the connection between graceful labelings and edge-antimagic labelings for generating large classes of edge-antimagic total trees from smaller graceful trees.