پس ماندگی کے مظاہر
’’کماری والا‘‘میں مصنف نے دیہی علاقے سے کہانی کا آغاز کیا۔وہاں کا ماحول ، ثقافت ،سادگی اور غربت و افلاس کی زندگی گزارتے ہوئے لوگوں کی مجبوریاں بیان کی ہیں لیکن یہ ناول کب ان باتوں سے ان پیچیدہ حالات کی طرف رخ کر لیتا ہے جہاں زندگی خودہی مجبوری لگنے لگتی ہے۔ملکی حالات ہوں ،دیہاتی زندگی ہو،شوبز نس کی چمکتی دنیا ہو ،سیاسی ایجنڈا ہو یا پھر مذہبی تکرارناطق نے ہر ایک کو اپنا موضوع بنایا اور ناول کے ذریعے معاشرے کے سامنے معاشرے ہی کی پس ماندگیوں کو عیاں کیا یقینا اس کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہے، انھیں تخیل پرعبور حاصل ہے۔وہ اپنے قلم کی طاقت سے حقیقت کے قریب کہانیاں لکھتے ہیں۔ان کی سوچ میں جیسے قاری کا نقشہ ابھرتا ہے اور معاشرے کا عمیق اور غائر مطالعہ کرنے کے بعد وہ بالکل قاری کو محسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسان بعض اوقات ایک وقت میں کئی زندگیاں گزار رہا ہوتا ہے۔ایک پہ بہر حال وہ پردہ رکھتا ہیاور اس پردیکے پیچھے چھپی زندگی ہی آہستہ آہستہ اس پر زندگی کا گھیرا تنگ کر دیتی ہے۔
اس نے کرداروں کی ایک ایسی بستی بسا رکھی ہیجو محسوس ہوتا ہے کہ مکالمے یا منظر نگاری کی وجہ سے نہیں بلکہ کرداروں کی وجہ سے کہانی پروان چڑھ رہی ہے۔وہ معاشرے میں رہتا ہوا ایک عام سا انسان ہوتا ہے اور اپنی زندگی کے تجربا ت کو بیان کرتا چلا جاتاہے۔وہ اردو ادب میں ایک بہت ہی اعلیٰ اضافہ ہیں اس ناول نے انھیں اردو ادب کے ادیبوں میں شمار کردیا ہے۔کماری والا کی تخلیق مصنف کی ایک منفرد کاوش ہے اس منفرد تخلیقی فن کار ی نے انھیں ایک نئی پہچان دی ہے لفظوں میں چھپے ان کے مطلب...
إذا كان التفكير الفلسفي منذ القدم قد جعل المعرفة وما يضمن شروط صدقها وعدم كذبها جزءا أساسيا من اهتماماته، فإن تناول هذه الإشكالية ظل دوما مرتبطا بما يميز كل فلسفة، مثلما هو مرتبط من جهة أخرى باللحظة التاريخية وبهيمنة بعض القضايا النظرية خلال تلك الحقبة. وقد تطور تناول هذا الإشكالية، من كونه إشكالية مرتبطة بأرسطو وبلغته الفلسفية والمنطقية التي تقوم على الحدود والقضايا والمقولات، إلى إشكالية الفلسفة الحديثة التي تقوم على سؤال مصادر المعرفة: بين العقلي والحسي-التجريبي، وما يرتبط بذلك من قضايا مثل آليات اشتغال العقل ودور الحسي والعواطف الانفعالات في إنتاج المعرفة والعلم، فضلا عن منزلة الرياضيات ومناهجها في إقامة وتطور المعرفة العلمية والفلسفية بالإنسان والطبيعة. من هنا تأتي أهمية تناول هذا المقال لموقف ''لايبنيز'' (Gottfried Wilhelm Leibniz) من مصادر المعرفة، وذلك للكشف عن أساس نظرية المعرفة ومبادئها انطلاقا من مفهوم الجوهر والموناد وتكامل العلاقة بين الإيمان والعقل، القائم على أساس العناية الإلهية. وقد عمل ''لايبنيز'' على إبراز وجهة نظره من خلال الرد على الفلاسفة السابقين مما يجعله تمهيدا أساسيا لفهم أهمية تلك المواقف وجعل العودة إليها أمرا حاسما في فهم هذه الإشكالية
Ontologies are used to describe dynamic knowledge of domains (part of the real world). If a change occurs to the domain, then the underlying ontology evolves over time and the change should reflect in the ontology to give true impression of the real world. Most of the existing ontology evolution management systems keep record of the changes atemporally and inefficiently. Keeping history of changes to ontologies is important and required feature in some application domains, because tracing back the recorded changes temporally and finding out a specific change play an important and crucial role in the making right operational decisions. To achieve the above mentioned objectives we propose a History Management System for Ontology Evolution (HMSOE). This system uses a modified version of the data model of Temporal Object System (TOS) because it records all types of changes in a single, elegant and temporal fashion. Later, the recorded changes are traceable temporally and a specific change can also be identifiable. We have modified the data model of TOS to add it more evolutionary features.