Search or add a thesis

Advanced Search (Beta)
Home > Emotional Intelligence and Self -Assertiveness Among University Students

Emotional Intelligence and Self -Assertiveness Among University Students

Thesis Info

Author

Maryam Bibi

Department

Department of National Institute of Psychological, QAU

Program

MSc

Institute

Quaid-i-Azam University

Institute Type

Public

City

Islamabad

Province

Islamabad

Country

Pakistan

Thesis Completing Year

2014

Thesis Completion Status

Completed

Page

68

Subject

Psychology

Language

English

Other

Call No: Diss / M . Sc/PSY / 844

Added

2021-02-17 19:49:13

Modified

2023-01-06 19:20:37

ARI ID

1676716917600

Similar


Loading...
Loading...

Similar Books

Loading...

Similar Chapters

Loading...

Similar News

Loading...

Similar Articles

Loading...

Similar Article Headings

Loading...

112. Al-Ikhlas/The Purity of Faith

112. Al-Ikhlas/The Purity of Faith

I/We begin by the Blessed Name of Allah

The Immensely Merciful to all, The Infinitely Compassionate to everyone.

112:01
a. Proclaim the truth:
b. HE is Allah, the One, and Only God–
c. - the infinite, limitless, indivisible, and most unique.
d. One in Essence and Peerless in Attributes.

112:02
a. Allah, the Eternally-Besought of all at times of need while HE seeks none.

112:03
a. HE has no family.
b. Neither giving birth to nor parenting anyone: no son, no daughter, no downstream family,
c. nor being born of anyone: no parents, no siblings, no upstream family.

112:04
a. And equal or comparable to HIM is no one, has never been anyone, and shall never be any.

اسلامی تعلیمات كی روشنی میں پسند كے نكاح كا تحقیقی جائزہ

lam is a Moderate ShariahAll its orders are free from exaggeration. Islam gives relaxation in the man's natural instincts and desires and checks to cross such limits which are based on the Principles of Prohibition. That is why, the one hand[ man is stopped strictly to do any wrong act while on the other side it was necessary to provide the others suitable and fair ways for catharsis. Moreover, it is the requirement of the man's mental and Shariah need. That there should be a legitimate contact between man's and woman's relationship-it is called"Nikah" in the light of the Holy Qura ’n and the Hadis.In terms of Nikah it must complete authority to men and women for their likings and disliking and the guardians are strictly forbidden to use enforcement and an the other side motivate both male and female that they should take their guardians in confidence while taking any step in this context

نوآبادیاتی عہد میں اقبال شناسی

نوآبادیاتی عہد میں اقبال شناسی میرے تحقیقی مقالے کا موضوع ” نو آبادیاتی عہد میں اقبال شناسی“ ہے ۔ میں نے یہ تحقیقی مقالہ ڈاکٹر الماس خانم صاحبہ کے زیر نگرانی تحریر کیا ہے۔اس تحقیقی مقالے میں نوآبادیاتی عہد میں اقبال کی شاعری،فلسفہ اور شخصیت پر لکھی گئی تصانیف کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس تحقیقی مقالے میں بنیاوی طور پر ان اولین اقبال شناسوں کو منظر عام پر لانے کی سعی کی ہے ،جنھوں نے اقبال کے شعری فلسفے کی تفہیم و توضیح اقبال کی زندگی میں اور وفات کے فوری بعد ایک تحریک کی صورت میں کی۔اقبال کی زندگی میں ان کے شخصی حالات اور فکر وفن سے متعلق متعدد پہلوؤں پر تحقیق و تنقید کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔اس مقالے میں اقبال کے معاصر ناقدین کی تصانیف کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس مقالے میں اقبال شناسی کی روایت کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔اقبال شناسی کی روایت اقبا ل کی زندگی میں ہی قائم ہونا شروع ہوگئی تھی۔اقبا ل کا شمار ان خوش نصیب شعرا میں ہوتا ہے جن کو ان کی زندگی ہی میں اعتبار حاصل ہوچکا تھا۔ اس مقالے میں اقبال کی زندگی ہی میں فکر اقبال کی تفہیم کے لیے کی گئی کوششوں کو موضوع بنایا ہے۔اقبال فہمی کی روایت اقبال کی زندگی میں اس قدر عام ہوئی کہ ان کے سوانحی حالات متعدد عالموں نے رقم کیے ۔اقبال کے فکروفن کی تفہیم و تحقیق کے ضمن میں نوآبادیاتی عہد کے رسائل و جرائد نے اقبال نمبر شایع کیے۔اس مقا لے میں ان تمام اخبارات اور رسائل و جرائد کا ذکر کیا گیا ہے،جنھوں نے اقبال کی زندگی میں اور اقبال کے انتقال کے بعد ان کا تعارف اور تصانیف کی تفصیل شایع کی۔ اقبال چوں کہ آفاقی شاعر تھے اس لیے عالمی علما نے بھی اپنے تنقیدی اور تحقیقی مقالوں میں اقبال کے فکرو فلسفے کو موضوع بنایا ہے۔اس مقالے میں ان تمام نوآبادیاتی عہد کے عالمی علما کی تحریروں اور تصانیف کا اعتراف کیا گیا ہے۔اس مقالے میں نوآبادیاتی عہد میں اقبال شناسی کی مطبوعہ کتب ،اخبارات اور رسائل کو تفصیل سے بیان کرنے کے لیے پانچ ابواب می تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب ” نو آبادیاتی عہد کا پس منظر “ کے عنوان سے ہے۔اس باب میں نوآبادیاتی نظام کے معنی و مفہوم اور پس منظر پر مفصل بحث کی گئی ہے۔اس باب میں نوآبادیاتی عہد کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے اور ہندوستان میں نوآبادیاتی عہد کے اہم مباحث کو بھی شامل کیا گیا ہے۔نوآبادیاتی عہد کے حوالے سے ایڈورڈ سعید،فرانز فینن اور ششی تھرو جیسے نامور مفکرین کے نظریات کی روشنی میں بحث کی گئی ہے اور ان کے تنقیدی نظریات پیش کیے ہیں۔ دوسرا باب ” اقبال کی تخلیقی شخصیت سازی میں نوآبادیاتی عہد کا کردار “کے عنوان سے شامل ہے ۔اس میں نو آبادیاتی عہد کے علامہ اقبال کی تخلیقی شخصیت پر جو اثرات مرتب ہوئے ان کا جائزہ لیا گیا ہے ۔اس میں علامہ اقبال کی پیدائش سے لے کر ان کی وفات تک کے عہد کو دو ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلا دور آغاز سے ۱۹۰۵ء تک اور دوسرا دور ۱۹۰۶ء سے ۱۹۳۸ء تک ہے ۔اس باب میں علامہ اقبال کی شخصیت پر مرتب ہونے والے اثرات کو ہندوستان کے نوآبادیاتی عہد کے تناظر پیش کیا گیا ہے۔ زیر ِنظر تحقیقی مقالے کا تیسرا باب ” نوآبادیاتی عہد میں اقبال شناسی (مطبوعہ کتب کی روشنی میں ) “ کے عنوان سےہے ۔اس باب میں ہندوستان کے نوآبادیاتی عہد میں علامہ اقبال کے افکارو خیالات ،فکرو فن اور سوانح حیات پر لکھی جانے والی تنقیدی و تحقیقی کتب کا جائزہ لیا گیا ہے ۔اس باب میں آزادی سے قبل اقبال کی سوانحی حالات پر لکھی جانے والی کتابوں کی نہ صرف فہرست پیش کی گئی ہے بلکہ ان کتابوں کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ بھی لیا گیا ۔ علامہ اقبال کے سوانحی حالات کے حوالے سے جو اہم کتب ہیں ان میں سوانح اقبال از حضرت طالب فارس لکھنوی(۱۹۳۸)،حیات اقبال از چراغ حسن حسرت(۱۹۳۸)،شاعر مشرق(The Poet of the East) از عبداللہ بیگ،(۱۹۳۹ء)،سیرت اقبال از محمد طاہر فاروقی(۱۹۳۹ء)،شاعر مشرق از ایم۔اے اسلام(۱۹۳۹ء)،اقبال از محمد حسین خان (۱۹۳۹ء)،خضر راہ اقبال الموسوم بہ سیرت اقبال از یکتا حقانی امروہی(۱۹۴۰ء)،اقبال نامہ از چراغ حسن حسرت(۱۹۴۰ء)،تاثراتِ اقبال از حسن اعرافی(۱۹۴۱ء)، اقبال از اختر اورینوی(۱۹۴۳ء)، ''Life story of sir Muhammad''از عبداللہ انور بیگ(۱۹۴۳ء)، ''Dr. Sir, Muhammad Iqbal''،از ایجوکیشنل پبلی کیشنز(۱۹۴۶ء) ، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے مختصر حالات زندگی اور نمونہ کلام،فیروز سنز(۱۹۴۶ء) ، ''Iqbal''عطیہ بیگم(۱۹۴۷ء) اقبال کے چند جواہر ریزے از پروفیسر عبدالحمید(۱۹۴۷ء) ملفوظات ازمحمود نظامی (س۔ن) قابل ذکر ہیں۔ سوانحی کتب کے علاوہ علامہ اقبال پر تحقیقی و تنقیدی کتب میں جن کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں النظر از جناب خان بہادر مرزا سلطان احمد خاں(۱۹۱۹ء)،اقبال از مولوی احمد دین(۱۹۲۳ء)،شرح آئینہ عجم از مولوی محمدچراغ (۱۹۲۷ء) ،نظم اقبال سفر حیدر آباد دکن اور سر اقبال کے اثرات ۱۹۱۰ء میں از تصدق حسین تاج(۱۹۳۷ء)،مکائد اقبال از مولانا سید برکت علی(۱۹۳۵ء)،فلسفۂ عجم از علامہ اقبال(۱۹۳۶ء)،لسان الغیب از حضرت مولانا حکیم فیروز الدین صاحب بلغرانی(۱۹۳۷ء)،ڈاکٹر سر محمد اقبال از میر بشیر احمد حیدر آبادی(۱۹۳۸ء)،اقبال اور اس کا پیغام از خالد خاور(۱۹۳۸ء)،پیام اقبال از عبدالرحمان طارق بی۔اے(۱۹۳۸ء)،اقبال کی شاعری از عبدالمالک آروی(۱۹۳۸ء)،متاع اقبال از فضل الہیٰ عارف(۱۹۳۹ء)،ڈاکٹر محمد اقبال از شیخ غلام علی سنز(۱۹۴۰ء)،اقبال اور دخترانِ ملت از عبدالرحمان بی۔اے (۱۹۴۰ء)،اقبال (مطبوعہ مضامین ،رسالہ اُردو ،اقبال نمبر)از مولوی عبدالحق(۱۹۴۰ء)،قرآن اور اقبال از ابو محمد مصلح(۱۹۴۰ء)،معارف اقبال از عبدالرحمان بی۔اے(۱۹۴۱ء)،اقبا ل کا مطالعہ اوردوسرے مضامین از سید نذیر نیازی(۱۹۴۱ء)،روح اِقبال از ڈاکٹر یوسف حسین خاں(۱۹۴۴ء)،اقبال از اختر اورینوی(۱۹۴۳ء)،اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین از ڈاکٹر رضی الدین صدیقی(۱۹۴۳ء)،موت و حیات از ڈاکٹر رضی الدین صدیقی (۱۹۴۳ء)،اقبا ل امام اَدب از رئیس احمد جعفری (۱۹۴۴ء)،رموزِ اقبال از ڈاکٹر میر ولی الدین (۱۹۴۴ء)،اقبال اور پیام حریت از پروفیسر محمد یوسف خاں سلیم چشتی (۱۹۴۴ء)،اقبال پر ایک نظر از سید محمد شاہ ایم۔اے(۱۹۴۴ء)،اقبال اور نونہال از وحید الدین سلیم(۱۹۴۴ء)،اقبال کی خودی حافظ کی بے خودی از بشیر مخفی القادری(۱۹۴۴ء)،آثار اقبال از غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴ء)،تصوراتِ اقبال از شاغل فخری(۱۹۴۵ء)،حکمت اقبال از غلام دستگیر رشید ایم۔اے(۱۹۴۵ء)،یادگار اقبال از سید محمد طفیل احمد بدر امروہی (۱۹۴۵ء)،اقبال کا نظریہ عقل و عشق از ڈاکٹر میر ولی الدین (۱۹۴۵ء)منشوراتِ اقبال از ادارہ بزمِ اقبال(۱۹۴۵ء)،اقبال ریزےاز انعام اللہ (۱۹۴۵ء)،خطباتِ اقبال از رضیہ فرحت بانو(۱۹۴۶ء)،اقبال اس کی شاعری اور پیغام از شیخ اکبر ایڈووکیٹ(۱۹۴۶ء)،جہان ِ اقبال از عبدالرحمان طارق(۱۹۴۷ء) شامل ہیں۔ چوتھا باب ”نوآبادیاتی عہد میں اقبال شناسی (رسائل و جرائد کی روشنی میں ) “کے عنوان سے شامل ہے ۔ اس باب میں ہندوستان کے نوآبادیاتی عہد میں اقبال شناسی کی روایت میں اہم کردار ادا کرنے والے رسائل و جرائد اور اخبارات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ان رسائل و جرائد میں معروف اقبال نمبر بھی شامل ہیں۔ نوآبادیاتی عہد کے رسائل وجرائد کے مدیران کی اقبال شناسی اپنی مثال آپ ہے ۔ نوآبادیاتی عہد کے وہ اہم رسائل و جرائد جنھوں نے اقبال شناسی کی روایت میں کلیدی کردار ادا کیا ان میں’’مخزن‘‘(١۹۰١ء)،رسالہ ’’اُردو‘‘ اقبال نمبر،(اکتوبر ۱۹۳۸ء)امیرالدولہ اسلامیہ ہائی اسکول میگزین اقبال نمبر(۱۹۳۸ء)،برہان ،دہلی،رسالہ ’’جوہر‘‘ دہلی اقبال نمبر(۱۹۳۸ء)،ماہنامہ ’’سب رس‘‘ حیدرآباد دکن اقبال نمبر (جون۔۱۹۳۸ء)،ماہنامہ ’’صوفی‘‘ پنڈی بہاؤلدین ضلع گجرات جنوری۔ (۱۹۰۹ء)،ماہنامہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ،نیرنگ خیال،لاہور،ماہنامہ ’’ھمایوں‘‘،لاہور مقالہ ہذا کا پانچواں باب ”نوآبادیاتی عہد کے اہم اقبال شناس “ کے عنوان سے ہے۔اس باب میں برصغیر اور عالمی اقبال شناسوں کا جائزہ پیش کا گیا ہے ،جنھوں نے نوآبادیاتی عہد میں اقبالیاتی ادب کی ترویج اور فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ زیرِ نظر تحقیقی مقالے میں نوآبادیاتی عہد میں اقبال کی زندگی میں اور ان کے انتقال کے بعد محققانہ نگاہ سے فکر انگیز بحث کرنے والے برصغیر کے چند اہم اقبال شناسوں کا تفصیلی تعارف ،تصانیف کی تفصیل اور اقبال شناسی کے حوالے سے جائزہ پیش کیا گیا ہے۔وہ اقبال شناس جنھوں نے اقبالیاتی ادب اور اقبال شناسی کی روایت میں کلیدی کردار ادا کیا، ان میں برصغیر کے جو قابل ذکر اِقبال شناس ہیں ان میں ،مولانا ابوالحسن علی ندوی،ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم،راس مسعود،شیخ عبدالقادر،عبدالواحد معینی ،ڈاکٹر یوسف حسین خان،ڈاکٹر سچد انند سنہا،محمد الدین فوق،محمد عاکف ارصوی،عبدالوہاب عزام ان کی زندگی میں ہی انھیں عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہو گئی۔اقبال نے خود کو جغرافیائی حدود میں قید نہیں کیا اس وجہ سے ان کی شاعری اور پیغام آفاقی ہے۔ آفاقی شاعر ہونے کی بنا پر انھیں عالمی علما نے بھی اپنے تنقیدی وتحقیقی مقالوں کا موضوع بنایا ہے۔ اس طرح پروفیسر آر۔اے نکلسن پہلا اقبال شناس تھا جس نے اقبال کی عظمت کا اعتراف کیا ۔جن عالمی فضلا نے اقبال پر لکھا ان کا شمار اہم مغربی اقبال شناسوں میں ہوتا ہے۔ ان میں پروفیسرآر۔ اے نکلسن،پروفیسر آرتھر جان آربری،پروفیسر ڈکنسن،ای۔ ایم فاسٹر،ہربرٹ ریڈ علامہ اقبا ل کے فکرو فلسفے کو جلا بخشنےمیں مشرقی مفکرین کے ساتھ ساتھ مغربی مفکرین کے افکاروخیالات بھی معنی خیز ثابت ہوئے۔مغرب میں اقبال کے اولین تعارف کا باعث فارسی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ ہے،جس کا انگریزی میں ترجمہ پروفیسر نکلسن نےکیا۔اس کے بعد پروفیسر آرتھر نے آربری نے ’’جاوید نامہ ‘‘کا انگریزی میں ترجمہ کیا ۔ان عالمی اقبال شناسوں نے اپنے زایۂ نظر سے اقبال شناسی کے فروغ میں عرق ریزی سے کام لیا۔اقبال شناسی نوآبادیاتی عہد میں بھی برصغیر کی حدود عبور کر کے ایک ایسی عالمی روایت کا درجہ اختیار کر گئی جو وقت گزرنے کے بعد بھی نئی رفعتوں اور وسعتوں کو چھو نے لگی۔ مقالہ ہذا کے آخر میں ”ما حصل “کے عنوان سے اس تحقیقی مقالے کا مجموعی جائزہ لیا گیا ہے۔جس میں کوشش کی گئی ہے کہ گزشتہ ابواب کے تمام مباحث کا ایک اجمالی و مختصر خاکہ منظر عام پر لایا جائے ۔ ”ما حصل “ کے طور پر زیر نظر تحقیقی مقالے کے مندرجات کا جواز پیش کیا گیا ہے اور ان ابواب کے مباحث کی اہمیت اور قدرو قیمت بیان کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ کتابیات کے تحت ان کتابوں ،رسالوں اور مکتوبات وغیرہ کے نام درج کیے ہیں ،جن کے براہ راست اقتباسات اور حوالے اس تحقیقی مقالہ میں شامل ہیں۔ایسی بے شمار کتب ،رسالہ جات ،اخبارات اور مضامین زیرِ مطالعہ رہے لیکن ان کے اقتباسات شامل مقالہ نہیں ہیں ان کے نام اس فہرست میں درج نہیں کیے گئے۔