پروفیسر انامری شمل
پروفیسر انامری شمل کی وفات علمی دنیا کا بڑا سانحہ ہے، ۲۷؍ جنوری کو اپنے گھر میں گرجانے کی وجہ سے ان کی وفات ہوگئی، وہ اس عہد کے ممتاز مستشرق تھیں، یورپ کی متعدد زبانوں کے علاوہ اردو، فارسی، عربی اور ترکی کی بھی ماہر تھیں، عربی میں ایک رسالہ بھی نکالا تھا اور قریباً ۵۰ کتابیں لکھیں۔
انہوں نے اپنی تمام عمر تحقیق اور علمی کاموں کے لیے وقف کردی تھی، مشرقی اور اسلامی علوم پر ان کی اچھی نظر تھی، ہندوستان کئی بار تشریف لائیں اور یہاں کے اصحاب علم و ذوق کو ان سے استفادے کا موقع ملا، اورینٹل اسٹڈیز میں انہوں نے جہاں مختلف مشرقی زبانوں پر کام کیا تھا وہاں اردو، غالب اور اقبال بھی ان کے مرکز توجہ رہے، ان کی وفات سے مشرقی زبانوں اور اردو کا بڑا نقصان ہوا، اس خلاَ کا پُر ہونا مشکل ہے۔
(ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۲۰۰۳ء)
This research presents an overview of the principle of accountability of the executive in an Islamic state. The existence and survival of any state is not sustainable without process of accountability as per the law of the land and the provision of the constitution. The elite class was exempted from any sort of accountability and treated above the law in pre-Islamic period whereas man in the street was dealt with strict compliance of rules and regulations. This paper has provided strong evidence from the perspective of historical research that the executive in the Islamic state has not been exempted from the process of transparent of accountability. Moreover, this article also builds up strong argument in light of Quran and Sunnah as well as line of action adopted by orthodox caliphs. It also highlights various incidents of accountability and legal precedence that occurred during Khilafat e Rashda and post era as well.
امہات المومنینؓ کی اتِ ِ ت طیبات سےامت کی خواتین کو ہمہ پہلو راہنمائی ملتی ہے۔ان کی زندگی کی معاشیاور معاشرتی سرگرمیاں خواتین کی زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کے لئے راہنمائی مہیا کرتی ہیں۔یہ سرگرمیاں نظا ِ ماتِتمیںایتیتاہمیتکیحاملہیں۔چنانچہ اس ضمن میں رسول اللہصلى الله عليه وسلم نے ازوا ِ جمطہرا ؓ تکیجسنہجپر تربیت فرمائی وہ ماررے سامنے ہے اور رہتی دنیا تک خواتین کے لیےایک نمونہ ہے۔امتِ محمدیہ کی خواتین کو اگرچہ معاشی اور معاشرتی معاملات میں مردوں کے برابر حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے لیکن بأمرِ مجبوری ایک حد کے اندر رہتے ہوئے ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے اور راہنمائی کے لیے امہات المؤمنین کی سرگرمیوں کوبنیادبنایاگیاہےتاکہدورِحاضرمیںاگراسشعبہمیںراہنمائیکیضرورتپیشآئےتوکوئیدقتنہ ہو۔ مقالہ ٰ ہذاکےموضوعکاانتخابدرج ذیل مقاصدکی بنا پر کیا گیا ہے: ۰۔تاکہامہاتالمؤمنینؓکیمعاشیاورمعاشرتیسرگرمیوںکاتاریخی و تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے۔ ۳۔تاکہخواتینکیمعاشیاورمعاشرتیسرگرمیوںکےلیےحدودوقیودکیوضاحتکیجائے۔ ۲۔تاکہعصرِحاضرکیخواتینکےلیےامہاتالمؤمنینؓ کی زندگی سے راہنمائیفرامکی جائے۔ چنانچہ ان مقاصد کے پیش نظر قرآن کریم، احادیث مبارکہ ، سیرت ِ طیبہ اور تاریخ کے تمام دستیاب شواہد کو سامنے رکھتےہوئےانمقاصدکےحصولکیحتیالوسعکوششکیگئیہے۔مقالہ ٰ ہذاکوپانچابوابمیںتقسیم کرتے ہوئے ان کے تحت ہر ممکنہ پہلو پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے تا کہ زیر بحث عنوان کا تصور مکمل طور پر واضح ہو سکے۔ چونکہ ماررا موضو ِ عتحقیقامہاتالمؤمنینؓکےبارےمیںہےلہٰذاباباولکودوفصولمیںتقسیمکرتےہوئےامہاتالمؤمنینؓ کےحالا ِ تزندگیکوختصراابیانکیا گیا ہے۔ فصل اول میں گیارہ امہات المؤمنینؓ کے احوال بیان کیے گئے ہیں اور فصل دوم ان خواتین کے بارے میں ہے جو امہات المؤمنین کے علاوہ آپصلى الله عليه وسلم کی زندگی میں آیں۔ اس فصل کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔