Search or add a thesis

Advanced Search (Beta)
Home > Pension System Reforms for Pakistan

Pension System Reforms for Pakistan

Thesis Info

Author

Umaima Arif

Department

Deptt. of Economics, QAU.

Program

Mphil

Institute

Quaid-i-Azam University

Institute Type

Public

City

Islamabad

Province

Islamabad

Country

Pakistan

Thesis Completing Year

2007

Thesis Completion Status

Completed

Page

105

Subject

Economics

Language

English

Other

Call No: DISS/M.Phil ECO/519

Added

2021-02-17 19:49:13

Modified

2023-02-19 12:33:56

ARI ID

1676719181133

Similar


Loading...
Loading...

Similar Books

Loading...

Similar Chapters

Loading...

Similar News

Loading...

Similar Articles

Loading...

Similar Article Headings

Loading...

جہلم دا سفر

جہلم دا سفر
دل آکھے میں جہلم جانا
’’ڈھوک رجو‘‘ جا درشن پانا
بس ٹر گئی یار قبولے
پئی دیندی پیار دے جھولے
میں جانا عشق سکولے
میں تے ربا کرم کمانا
بس آ گئی عارف والے
سانوں مل گئے دیس نکالے
جنھاں عشق دے دیوے بالے
اگے جا کے موج منانا
بس آ گئی ساہیوال
میرا پیر بڑا لجپال
دیندا دل دے دیوے بال
میرے دل نوں نور بنانا
بس آ گئی شہر اوکاڑے
کیویں پائے عشق پواڑے
گھر کتنے ایس اُجاڑے
سانوں خیر دیدار دا پانا
بس آ گئی شہر لاہور
چلے دل تے نہ کوئی زور
اوہدی دید نوں پاوے شور
دل دے کے یار منانا

بس آ گئی گجرانوالہ
نہیں عشق دا پندھ سوکھالا
ساڈا اللہ اے رکھوالا
پردیس چ نہ گھبرانا

بس آ گئی وچ گجرات
ساڈے نال ہووے گل وات
سانوں دے سجناں اک جھات
ساڈے دل دا شوق ودھانا

بس آ گئی اے وچ کھاریاں
اساں بڑیاں واجاں ماریاں
سن سجناں ساڈیاں زاریاں
سانوں در تے آپ بلانا
بس ’’عالم گیر سرائے‘‘
اساں یار دے نیڑے آئے
ساڈے نین بڑے ترہائے
سانوں سوہنا مکھ وکھانا

بس اپڑی جہلم اڈے
اسیں بھیڑے کم سب چھڈے
ساڈے لیکھ ہوئے اج وڈے
اساں جہلم وقت لنگھانا

پھڑ ویگن گئے سنگوئی
اسیں کلے، نال نہ کوئی
لاہ مکھ توں سجناں لوئی
اساں ول ول درشن پانا

اسیں ’’ڈھوک رجو‘‘ وچ آئے
ساتھے رب نے کرم کمائے
اسیں قادریؔ! درشن پائے
دل آکھے ، مڑ نہیں جانا

اردو اور ہندی کا لسانی اشتراک و افتراق

اردو اور ہندی کا لسانی اشتراک و افتراق Initially was only language used to express human ideas. In every age, along with customs and traditions, language also went through stages of evaluation. That is why language of each region is unique. This uniqueness of languages is of its identity. Like human beings, languages also have their own families, and different languages grow as sub- branches of language family. They flourish and sometimes thrive and come to life through process of evolution. When some languages die out. Urdu and Hindi also belong to large languages families. They have a deep relationship. And speaking of same relationship, some tinkers do not separate them from each other. When it sometimes thinkers, there is difference between in the two. At a glance, we will mention the linguistic similarities and difference between Urdu and Hindi. Where are places and where there is difference between them, but all of them are mentioned here.

اردو ڈیجیٹل کتب

س تحقیقی مطالعہ سے سامنے آنے والے نتائج کا مجموعی خلاصہ یہ ہے کہ اردو متن کے کمپیوٹری تعاملات کو ممکن بنانے میں عالمی سطح پرجس قدر ترقی ہوگی، اردو ڈیجیٹل کتب اتنے ہی بہتر معیار کے ساتھ تیار کی جاسکیں گے۔ اردو متن کے حوالے سے تحقیق تین سطح پر جاری ہے: تجارتی ادارے، علمی و تحقیقی ادارے، اور افراد۔ ان تینوں گروہوں کا باہم عدم تعلق اردو ڈیجیٹل کتب کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ علاوہ ازیں، اردو متن کے کمپیوٹری تعامل میں اس وقت بنیادی رکاوٹ یہ ہے کہ اردو خط نستعلیق میں لکھی جاتی ہے، اور تا حال کمپیوٹر کے لیے ایسا کامیاب سوفٹ وئیر نہیں بنایا جاسکا جو اس خط کو تصویر کے بجائے،تحریرکیصورتمیںایکایکحرفکی الگشناختکرسکے۔اسبنیادیمسئلہکےحلکے امکانات اس لیے روشن ہیں کہ دنیا بھر میں ، اردو سے بھی زیادہ پیچیدہ زبانوں کے ’عکس نوشت‘سوفٹ وئیر کے لیے تحقیق جاری ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ہی کے دیگر ذیلی شعبوںجیسے مصنوعی ذہانت وغیرہ میں تیزی سے ترقیہورہی ہے اور اسے مختلف زبانوں کے لیے مشینی ترجمے ،عکس نوشت اور متن کے صدا میں تبدیلی جیسے استعمالات کے لیے کام میں لانے کے لیے تجربات جاری ہیں۔ ایسے تمام تجربات بالواسطہ اردو کمپیوٹری تعاملات کے لیے بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ کتابی صنعت سے وابستہ افراد اور اداروں میں اردو ڈیجیٹل کتب کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیاں،اوراسنئےذریعےکےامکاناتسےناواقفیت،اردوڈیجیٹلکتبکےراستےمیںایکبنیادی رکاوٹ ہے۔ ناشرین کی اپنی علمی سطح، تربیتی معیار، کاروباری تجربہ اور عالمی کاروباری رجحانات سے عدم واقفیت ایسے عوامل ہیں جو اردو زبان میں ڈیجیٹل کتب کے حوالے سے تجارتی سطح پر تجربات کرنے کے اقدام میں حائل ہیں۔ کتابی صنعت سے وابستہ افراد کا بہتر اور نمائندہ تنظیمی ڈھانچہ جو کتاب سے متعلق دیگر گروہوں جیسے لائبریرنز، حکومتی اداروں، ترویج خواندگی سے متعلق عالمی اداروں اور تنظیموں سے رابطہ کا اہل ہو، یقیناً اردو زبان میں کتاب اور ڈیجیٹل کتاب کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان میں اردو زبان میں کتاب کی تیاری، طباعت اور فروخت کا موجودہ نظام اور اس سے وابستہ افراد اور اداروں کی مالی، تکنیکی اور علمی اہلیت ، تجارتی سطح پر اردو دیجیٹل کتاب کے فروغ اور اشاعت سے کافی دور ہے۔ سماجی سطح پر حکومتی متعلقہ اداروں کا اردو ڈیجیٹل کتب کی اہمیت اور وجود کو تسلیم نہ کرنا، یا اسے محض کاغذ پر شائع ہونے والی کتب کا عکس سمجھنا، وہ رویہ ہے جس سے دیگر متعلقین براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ قومی کتب خانہ،اسلام آبادمیں حکومتی سطح پر اردو میں ڈیجیٹل کتب کو ذخیرہ کا حصہ بنانے کی اہلیت ہے اور نہ ہی اس سے متعلق دستاویزات ’قومی کتابیات ‘کا حصہ بنائی جاتی ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی اب تک کی مساعی کاغذ پر شائع ہونے والی کتب سے متعلق ہیں؛اردو سائنس بورڈ،ادارہ فروغ قومی زبان(مقتدرہ قومی زبان)، اکادمی ادبیات اور مرکزی و صوبائی وزارت تعلیم میں سے کوئی بھی ادارہ اب تک نہ ڈیجیٹل کتب کے حوالے سے کوئی پالیسی تیار کرپایا ہے ،اور نہ ہی اس کے فروغ کے لیےکوئی اقدام کیا گیا ہے۔ حکومتی اداروں کا یہ رویہدرحقیقت اُن بڑی سماجی رکاوٹوں کا عکاس ہے جہاں پاکستان بھر میں خواندگی کی انتہائی کم شرح، اور اقتصادی حالت کی زبوں حالی سے ، کتاب اور مطالعہ کی کسی بھی صورت کا فروغ، واضح ترجیحی پالیسی اور اقدامات کا طالب ہے۔ ملک میں توانائی کا بحران اور صارفین کی کمی کی وجہ سے تجارتی ادارے ڈیجیٹل صورت میں اردو کتاب شائع کرنے کو ناممکن تجربہ خیال کرتے ہیں۔ پاکستان میں اردو کتب شائع کرنے والے ناشرین کا موجودہ طریقہ تجارت یہ ہے کہ کتاب کو کم سے کم تعداد( بالعموم ایک ہزار)میں شائع کرکے اسے ملک بھر کے یقینی خریداروں تک پہنچا یا جائے ، اورکتاب کے اس منافع کو مد نظر رکھ کر کاروبار کو پھیلایا جائے ۔ اس طریقہ کار کو سامنے رکھتے ہوئے ، اردو میں ڈیجیٹل کتب کے فروغ کے لیے یہ عملی اقدام حکومتی پالیسی کا منتظر ہے، کہ کتاب کی صنعت سے وابستہ بڑے ناشرین کو یہ ضمانت دی جائے کہ ان کیتیار کردہ اردو ڈیجیٹل کتاب ،حکومتی اور علمی اداروں میں کم از کم تعداد میں خریدی جائے گی۔ ان ڈیجیٹل کتب سے جامعات اور لائبریریوں میں استفادہ کیا جائے تو کاپی رائٹ کے خلاف ورزی سے ممکنہ نقصان کا خوف ناشرین سے جاتا رہے گا اور ملک میں تجارتی سطح پر اردو ڈیجیٹل کتب کا فروغ ممکن ہوگا۔ غیر تجارتی اور علمی سطح پر اردو زبان میں ڈیجیٹل کتب عالمی اور ملکی ادارے اور تنظیمیں بڑے پیمانے پر فروغ دے رہی ہیں۔ اس عمل کو تیز کرنے کے لیے مصنفین اور ناشرین کو اردو کمپیوٹر کی بنیادی، دو ماہ کی تربیت دینا، جس سے وہ کتاب کمپیوٹر پر تیار کرنے اور اسے عالمی سطح پر موجود ویب سائٹس جیسے ’انٹرنیٹ آرکائیو ‘پر اپ لوڈ کرنے کے اہل ہوں سکے، یقیناً بہت بڑے پیمانے پر علمی خزانوں کی تحفیظ اور ترویج کا باعث بن سکتا ہے۔ اس تحقیق کے دوران اردو زبان میں کتاب اور ڈیجیٹل کتاب کے فروغ میں مزاحم سب سے بنیادی عنصر کی نشاندہیاس موضوع پر تحقیق کے عدم وجود کے طور پر کی جاسکتی ہے۔ کتاب، عادات مطالعہ، معیاری بندی، طباعتی قوانین اور اس جیسے کسی بھی موضوع پر عملاً تحقیق اور اعداد و شمار دستیاب ہی نہیں ہیں۔ ما سوائے چند جامعات کی سندی تحقیق کے، جو ایم فل، پی ایچ ڈی کی سطح پر طالب علمانہ تحقیق ہے، اردو کتاب کے حوالے سے تجارتی یا علمی حکومتی سطح پر کوئی تحقیقی کوشش نظر نہیں آتی۔ اگر خواندگی، تعلیم، آگاہی اور طباعت سے متعلق عالمی و ملکی تنظیمیں اور ادارے، اردو زبان میں کتاب کے حوالے سے تحقیقی منصوبے ترتیب دیں ، تو یقیناً یہ اردو ڈیجیٹل کتب کی راہ میں حائل بہت بڑی عملی مشکل کا دور کرنے کا باعث ہوگا۔ کسی بھی زبان میں کتاب کی دو بنیادی وظائف ،علم اور معلومات کی حفاظت اور ان کا ابلاغ ہوتا ہے۔ یعنی کتاب زمانی و مکانی محدودات سے ماورا ہوکر اپنے اور اپنے عہد کے بعد کے انسانوں تک ترسیل علم کا ذریعہ ہوتی ہے۔ باب اول کے حصہ)(1.1.4میں یہ تخمینہ دیا گیا ہے کہ دنیا میں کل محفوظ رہ جانے والی کتب کی تعداد 13کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اردو زبان کی اولین کتاب 1743ء میں شائع ہوئی۔ تب سے موجودہ برس )(2018تک، 275برس میں اگر ہر برس دس ہزا ر کتب کی اوسط تسلیم کرلی جائے تب بھی اردو کی کل کتب کی تعداد محض 27لاکھ 50ہزار تکپہنچتی پاتی ہے۔ اس تعداد میں قلمی نسخے ،اہم جرائد اور مطبوعات کو شامل کرکے ، اسے دگنا بھی تسلیم کرلیا جائے تو ، کل تعداد 50لاکھ کتب بنتی ہے۔ اس باب کے آغاز میں،بریوسٹرکیہلکےنقلکردہقولکومعیاربنایاجائےتواردوکیتمامکتبکو،اُنکیجمعآوریکے اخراجات کو نکال کر، محض پانچ میل لمبی ہائی وے کی تعمیر کی لاگت سے ڈیجیٹل صورت دی جاسکتی ہے۔ یہ تمام اعدادو شمار اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی رفتار اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اگر ریاستی سطح پر درست فیصلہ سازی کی جائے تو محض ایک عشرے بعد ،اردو کی تمام کتب کسی بھی صارف کو موبائل فون اور لیپ ٹاپ میں فراہم ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ علم کے اس قدر وسیع خزینے کے باعث ، تحقیق اور علم کی ترقی اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی ترقی اس کا لازمی نتیجہ ہوگا۔ علاوہ ازیں ، اردو میں شائع ہونے والی کتب اگر تجارتی بنیادوں پر تیار اور فروخت کی جاسکیں، تو دنیا بھر میں اردو قارئین کم قیمت اور بہتر معیار اور رفتار پر کتب کے وسیع خزینے سے استفادہ کے اہل ہوسکیں گے۔اس سے نہ صرف علمی معیار میں اضافہ ہوگا ،بلکہ خود اردو زبا ن کی ترقی یقینی ہوگی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث ان تمام خوش گوار امکانات کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے بنیادی شرط ، اردو ڈیجیٹلکتب کی اشاعت میں حائل رکاوٹوں کا ادراک اور ان کو دور کرنے کے عملی اقدامات ہیں۔ زیر نظر مطالعہ اس اہم علمی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تحقیق کے طالب علم کی حیثیت میں، اردو ڈیجیٹل کتب کی راہ میں حائل تکنیکی، پیشہ ورانہ اور سماجی رکاوٹوں اور ان کی نوعیت کے تعین کی .ایک غیر جانبدارانہ ،علمی اور تحقیقی کوشش تھی