پیام مشرق
یہ مجموعہ کلام 1923ء میں منظر عام پر آیا۔ اقبال کے فارسی مجموعوں میں اسے بہت پسند کیا گیا۔ اس میں رباعیاں، غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ رباعیات کے حصہ کو” لالہ طور“ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس میں کل 163 رباعیات شامل ہیں۔ نظموں کے حصے کو” افکار “کا عنوان دے کر اس تصنیف میں شامل کیا گیا ہے۔ اور 45 غزلیات کو ”مے باقی “ کا عنوان دے کر شامل کیا گیا ہے۔ ”نقش فرنگ“ کے عنوان سے کچھ نظمیں ہیں اور ”خردہ“ ( نکتہ ) کے حوالہ سے چند خاص باتیں اختتام پر دی گئی ہیں۔
اس کتاب کی خاص بات اس کا دیباچہ بھی ہے۔ اس دیباچے میں اقبال نے لکھا ہے کہ” پیام مشرق “کی تخلیق جرمن شاعر گوئٹے کے” دیوان مغرب“ کے جواب میں ہوئی ۔ گوئٹے مشرقی ادبیات میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ خاص طور پر وہ حافظ شیرازی سے بہت متاثر تھا۔
بانگ درا
3 ستمبر 1924 ء کو منظر عام پر آنے والا یہ اردو کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اس میں تقریباً چوبیس سال تک کا کلام موجود ہے۔ اقبال اردو کلام کی اشاعت کے حق میں نہ تھے۔ ایک صاحب نے شوق میں یہ کام کر بھی دیا تو اقبال نے قانونی طور پر پابندی عائد کروادی۔ اس کے بعد خود توجہ دی۔ بہت سا حصہ حذف کر دیا۔ اقبال کے تمام مجموعوں میں بانگ در اسب سے بڑا مجموعہ ہے۔ اس میں 1901ء سے 1905 ء کا کلام پہلے حصے میں 1905ء سے 1908ء کا کلام دوسرے حصہ میں اور یورپ سے واپسی کے بعد سے لے کر 1924 ء تک کا کلام تیسرے حصے میں شامل ہے۔ اس طرح بانگ درا کے کل تین حصے ہیں۔ اس میں143 نظمیں اور 28 غزلیں شامل ہیں۔عمدہ افکار و اسالیب پر مبنی مرثیے اس...
تعد الزراعة حرفة بشرية تعاونية قديمة بدأت بالأسرة الريفية كوحدة إنتاج استهلاكية تتشابك داخلها وظائف منزلية وزراعية تؤدي فيها المرأة الريفية دوراً كبيراً، والقيام بالصناعات اليدوية والمنتجات المنزلية وربما تأخذ دور رئاسة الأسرة، حيث يقع على عاتقها إدارة العمل الزراعي وتدبير الأمور المنزلية بالوقت نفسه. ومن هذه الأهمية لدور المرأة الريفية اتضحت أهمية البحث في إلقاء الضوء على كيفية تمكين المرأة الريفية العراقية للقيام بدورها بأكمل وجه في تطوير الواقع الزراعي في العراق وتنميته. فكان البحث يسير على المنهج التحليلي والمنهج النظامي لإظهار دور العوامل المساهمة في تمكين (المرأة الريفية) في هذا القطاع، وتوصل البحث إلى استنتاجات متعددة، أهمها أنَّ المرأة العراقية الريفية لم تحظ بدورها الحقيقي في مجال تنمية القطاع الزراعي، وأنَّ عملية تمكينها تحتاج الى تخطيط وتنظيم علمي مدروس وفق أسس التنمية البشرية التي يمكن أن تسهم بها المؤسسات ذات العلاقة بالإنتاج الزراعي وبشكل فعال من خلال توفير ما تحتاجه المرأة الريفية لتطوير عملها الزراعي المعدات والمستلزمات أو من التدريب وتطوير المهارات أو التعاون مع مؤسسات ومنظمات المجتمع مدني لتعليمها وتطوير قدراتها على استعمال (التقنيات الحديثة) في هذا القطاع وتوعية المجتمع لتقبل تطور المرأة والمشاركة مع الرجل في إدارة الإنتاج الزراعي وكانت كمقترحات للبحث في خاتمته أيضاً.
الكلمات المفتاحية: المرأة، الريفية، والتنمية، الزراعية، العراق.
A variety of Schiff bases and their metal complexes have been synthesized from 3 – acetyl – 2 H – chromen – 2 - one and anils. 2-hydroxybenzaldehyde was reacted with ethyl acetoacetate (acacs) in the presence of piperidine to give 3 – acetyl – 2 H - chromen – 2 - one which was further reacted with different anils namely p-toluidine, p-chloroaniline and 2-nitroanilie to obtain Schiff bases. These Schiff bases were used as ligands in the current study. Schiff base metal complexes were then synthesized by reacting Schiff base ligands with 3d-transition metals nickel( II), cobalt( II), copper( II) and zinc( II). Both ligands and metal complexes were then characterized by various spectroscopic techniques which include UV-visible spectroscopy, 1H NMR, 13C NMR spectroscopy and powder X-ray diffraction (PXRD). Stability of complexes was estimated in solid and solutions form. Amounts of metals in complexes and metals’ to ligands ratios were estimated by Atomic Absorption Spectroscopy (AAS). These metal complexes were found diamagnetic by vibrating sample magnetometry. Schiff base complexes were found to have immense applications in biological fields. So all Schiff base ligands and their metal complexes were scanned against gram positive and gram negative bacterial strains and it was found that they show promising activities against selected bacterial strains.