باب دوم: علمی خدمات
علمی منصوبے
پروفیسر عبد الحق کا کمال یہ ہے کہ وہ کبھی بھی علم و ادب کی بساط سے خالی نہیں رہے۔ جب 12 مارچ 2004ء کو شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کی ملازمت سے فارغ ہوئے تو ایک ہی ماہ کے اندر یعنی یکم اپریل 2004 ء سے اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر میں مہمان پروفیسر (Visiting Professor) کے طور پر فائز ہوئے۔ وہاں پر وہ چند ماہ یعنی 31 دسمبر 2004 ء تک مقرر رہے۔ اسی دوران U.G.C نے انہیں ایک تحقیقی منصوبے پر کام کرنے کی اجازت دی۔ ان کے اس تحقیقی منصوبے کا موضوع تھا” بیسویں صدی کے اردو ادب میں تفکیری تصورات“ ۔ انہوں نے اس منصوبہ پر 3 جون 2005 ء تک کام کیا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی نے انہیں مہمان پروفیسر ذمہ داری سونپی۔ اس دانش گاہ میں انہوں نے پورے تعلیمی سال یعنی 12 مئی 2007ء تک کام کیا۔ یکم جون 2007 ء سے کشمیر یونیورسٹی میں دوبارہ مہان پروفیسر کے طور پر بلا لیے گئے لیکن اس بار وہ کچھ ذاتی مجبوریوں اور مصروفیات کی بنا پر کشمیر نہ جاسکے۔ پروفیسر عبد الحق کے تلامذہ اور ان کی نگرانی میں تقریباً تیس (30) طلبا و طالبات نےایم فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کے مقالے لکھے ہیں۔ ہندوستان میں پروفیسر عبد الحق علامہ اقبال پر سب سے پہلے پی۔ ایچ۔ ڈی کرنےوالے طالب علم ہیں (1) اس لحاظ سے علامہ اقبال ان کا اختصاص اور ان کی شناخت بن گیا لیکن علمی، تحقیقی اور ادبی سرگرمیوں میں وہ تحقیق، تنقید، مخطوطات شناسی اور دوسرے زبانی و ادبی موضوعات پر بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اس کا اندازہ ان کی نگرانی میں تحقیق کرنے والے طلبا و طالبات کے موضوعات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو حسب ذیل الف پائی ترتیب سے درج کیے گئے ہیں۔
يعد التوحيد سلطاناً على القلوب والنفوس ولا يكاد يدانيه في سلطانه وتأثيره شيء اخر الذي يجعل النفس الانسانية رقيباً على سلوك صاحبها، فان التوحيد هو أساس دعوة الأنبياء -عليهم السلام - التي انطلقوا منها في الدعوة إلى عبادة الله وتوحيده، فان الاعتقاد بهذا الاصل هو على رأس جميع الاعتقادات، ونجد حوارات جميع الانبياء بالدعوة إلى التوحيد امتازت بالوضوح وبالأسلوب المناسب لعقول المدعوين، وبالدلائل الواقعية، وسلاحهم في ذلك هو الكلمة التي تعبر عن الفكرة المأخوذة من واقعهم، المقرونة بإيقاظ الخوالج والوجدان التي عبر عنها الانبياء فكانت النبوات التي قادت هذا الإنسان ووجهته نحو التوحيد الذي به خلاص الفرد من كل ما يؤدي به إلى الصراع الداخلي ، والصراع الخارجي مع غيره، والمنقذ له من الحيرة والقلق، ولنقلهم من واقع لم يحقق إنسانيتهم إلى واقع يرفعهم إلى مستوى الإنسانية.
Pakistan relations with Afghanistan have mostly been frail, based on mutual mistrust which has never allowed the two countries to establish closer ties. In post Taliban era, Pakistan recognized Hamid Karzai government and expressed its desire of establishing friendly relations but nature of relationship was fragile and mistrust was dominant. Their bilateral relations during (2001-2008) showed heightened mistrust which inhibited the development of strong and stable relationship and presented a situation of Prisoner‟s Dilemma. Several issues strained their relations and were responsible for widening trust gap. Mistrust in the fight against terrorism, cross border infiltration, blame game, safe havens in FATA and regional factors complicated the situation and halted cooperation between the two neighbors. Pakistan and Afghanistan are security seekers but concrete steps for bringing peace and security are lacking on their part. A friendly and secure Afghanistan is very much important for Pakistan‟s future stability, security and prosperity and vice versa. Mistrust and causes of friction, if not removed, will complicate the process of maintaining friendly relations and threaten regional peace and security. The study therefore, highlights the causes of friction and recommends breaking the Prisoner‟s Dilemma to establish relations based on mutual trust and cooperation.