Search or add a thesis

Advanced Search (Beta)
Home > Molecular Detection of Hepatitis C Virus in Rahim Yar Khan District Population by Quantitative Real Time-Pcr

Molecular Detection of Hepatitis C Virus in Rahim Yar Khan District Population by Quantitative Real Time-Pcr

Thesis Info

Access Option

External Link

Author

Tabinda Hina

Institute

Virtual University of Pakistan

Institute Type

Public

City

Lahore

Province

Punjab

Country

Pakistan

Thesis Completing Year

2018

Thesis Completion Status

Completed

Subject

Software Engineering

Language

English

Link

http://vspace.vu.edu.pk/detail.aspx?id=217

Added

2021-02-17 19:49:13

Modified

2024-03-24 20:25:49

ARI ID

1676720997349

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Similar


Hepatitis is a major disease spreading more rapidly in all over Pakistan and its detection is increasing day by day. Knowledge of the distribution of HCV has important clinical implications since the efficacy of current and new therapies. The treatment of chronic hepatitis C virus (HCV) infection has the potential to change significantly over the next few years as therapeutic regimens are rapidly evolving. However, the burden of chronic infection has not been quantified at the global level using the most recent data. Cohort and cross sectional study 534 blood samples randomly selected patients of pulmonary or extrapulmonary tuberculosis (T.B) was calculate utilizing Quantitative Polymerase chain reaction (qPCR). We examined Hepatitis C virus (HCV) by ELISA and confirmation by qPCR. Risk factors estimated and study association among the triple or Co-infection of (HCV), and mycobacterium tuberculosis in dissimilar period of life and groups of patients. Distribution of co-infection was diverse in regions. Decision between the 534 positive T.B patients analysis, 498 (93.2%) patients were negative and 93 (17.41%) were positive for HCV by using the qPCR technique. The transference of HCV was estimated to have take place by and large between ages of 20-40, unmarried, poor and illiterate. Detection rate is high of HCV in males rather than females. There was developed a correlation between co-infection of HCV and tuberculosis patients due to low immunity and body mass index (BMI). We found that HCV can be effect on TB patients. Active tuberculosis is leading to the cause of death living with HCV.There is need Standard operating protocols (SOP?s) for better management of tuberculosis patients.
Loading...
Loading...

Similar Books

Loading...

Similar Chapters

Loading...

Similar News

Loading...

Similar Articles

Loading...

Similar Article Headings

Loading...

۔غزل

غزل ---فرحت شکور(پاکپتن)

مت پوچھ کہ ہم کیسی بلاؤں میں گھرے ہیں
بے یارو مدد گار تیرے چاہنے والے
جینے کا ہمیں حق ہے نہ مرنے کی اجازت
آنکھوں میں کوئی خواب نہ دل میں کوئی خواہش
سینچا ہے لہو دے کے سدا لالہ و گل کو
حسرت ، کبھی نفرت ، کبھی غربت ہمیں بخشی
افلاس و فلاکت کی چلی آندھیاں ہر سو
اے میرے خدا کیوں یہ میرے دیس کے باسی
سچ ، سوچ ، قدم اور قلم محدود ہیں اپنے
ہوتے ہی نہیں پست کبھی حوصلے میرے
لوٹے نہ میرے صاحب اس شہرِ فسوں جا کر
آیا نہ خیال ان کو میری صحرا گری کا
یکسر نہیں میرا ، تو رقیبوں کو مبارک
کیا پوچھتے ہو حالِ دلِ زار ہمارا
کس موڑ پہ لے آیا یہ عشق ہمیں فرحتؔ

 

خوابوں سے جو نکلے تو صداؤں میں گھرے ہیں
صحراؤں کی جاں سوز ہواؤں میں گھرے ہیں
ہم اہلِ وفا کیسی سزاؤں میں گھرے ہیں
ہم زیست کی بے رنگ خلاؤں میں گھرے ہیں
کیوں اہلِ چمن پھر بھی خزاؤں میں گھرے ہیں
ہم لوگ مقدر کی عطاؤں میں گھرے ہیں
کیوں اہلِ وطن اتنی وباؤں میں گھرے ہیں
ڈر خوف کی محبوس فضاؤں میں گھرے ہیں
ہم اہلِ سخن ایسے خداؤں میں گھرے ہیں
شاید کسی اپنے کی دُعاؤں میں گھرے ہیں
کسی دلرُبا کی دلکش اداؤں میں گھرے ہیں
کس زُلفِ گرہ گیر کی چھاؤں میں گھرے ہیں
ہم اہلِ طلب اب کہ اناؤں میں گھرے ہیں
اک یار بے وفا کی جفاؤں میں گھرے ہیں
دُکھ درد کی گھنگھور گھٹاؤں میں گھرے ہیں

Coverage of Women Issues in the Pakistan’s Press: A Critical Analysis

The aim of this research is to thoroughly analyze the part multilingual dailies play in covering women issues in Pakistan. It is rooted from national newspapers, the Daily ‘Dawn’, the Daily ‘Jang’ and the Daily ‘Kawish’ in the year of 2011. The study explores to what extent of the violence against women and education issue of women is dealt by the sampled dailies. The study employed content analysis a quantitative research methodology during 1st January 2011 to 31st December 2011. The contents of the newspaper were measured in column per centimeter of the space of one year. For this research work three major dailies of three different languages, the Daily Dawn, the Daily Jang and the Daily Kawish were selected. In sum up, an elite class newspaper the Daily Dawn has published 562 very little issues of women and used 0.6 percent of the total capacity which is of 4353024 co./cm in the year of 2011. However, the Sindhi language newspaper, the Daily Kawish has used 2430 a little more issue of women and covered 2.3 percent of total capacity of 1678976 col./cm of this daily in 2011. To some extent, the Urdu language newspaper the Daily Jang has reported 1297 more number of women issues and used 1 percent of total capacity of 2423616 col./cm in one year. Hence, the result shows that Pakistani press gives a little bit space to issues of women rights. Although, the Daily Dawn and the Daily Kawish have reported more issues of violence against women but the Daily Jang (an Urdu language newspaper) has covered more education problems of women in its newspaper in the year of 2011.

اردو ڈیجیٹل کتب

س تحقیقی مطالعہ سے سامنے آنے والے نتائج کا مجموعی خلاصہ یہ ہے کہ اردو متن کے کمپیوٹری تعاملات کو ممکن بنانے میں عالمی سطح پرجس قدر ترقی ہوگی، اردو ڈیجیٹل کتب اتنے ہی بہتر معیار کے ساتھ تیار کی جاسکیں گے۔ اردو متن کے حوالے سے تحقیق تین سطح پر جاری ہے: تجارتی ادارے، علمی و تحقیقی ادارے، اور افراد۔ ان تینوں گروہوں کا باہم عدم تعلق اردو ڈیجیٹل کتب کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ علاوہ ازیں، اردو متن کے کمپیوٹری تعامل میں اس وقت بنیادی رکاوٹ یہ ہے کہ اردو خط نستعلیق میں لکھی جاتی ہے، اور تا حال کمپیوٹر کے لیے ایسا کامیاب سوفٹ وئیر نہیں بنایا جاسکا جو اس خط کو تصویر کے بجائے،تحریرکیصورتمیںایکایکحرفکی الگشناختکرسکے۔اسبنیادیمسئلہکےحلکے امکانات اس لیے روشن ہیں کہ دنیا بھر میں ، اردو سے بھی زیادہ پیچیدہ زبانوں کے ’عکس نوشت‘سوفٹ وئیر کے لیے تحقیق جاری ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ہی کے دیگر ذیلی شعبوںجیسے مصنوعی ذہانت وغیرہ میں تیزی سے ترقیہورہی ہے اور اسے مختلف زبانوں کے لیے مشینی ترجمے ،عکس نوشت اور متن کے صدا میں تبدیلی جیسے استعمالات کے لیے کام میں لانے کے لیے تجربات جاری ہیں۔ ایسے تمام تجربات بالواسطہ اردو کمپیوٹری تعاملات کے لیے بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ کتابی صنعت سے وابستہ افراد اور اداروں میں اردو ڈیجیٹل کتب کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیاں،اوراسنئےذریعےکےامکاناتسےناواقفیت،اردوڈیجیٹلکتبکےراستےمیںایکبنیادی رکاوٹ ہے۔ ناشرین کی اپنی علمی سطح، تربیتی معیار، کاروباری تجربہ اور عالمی کاروباری رجحانات سے عدم واقفیت ایسے عوامل ہیں جو اردو زبان میں ڈیجیٹل کتب کے حوالے سے تجارتی سطح پر تجربات کرنے کے اقدام میں حائل ہیں۔ کتابی صنعت سے وابستہ افراد کا بہتر اور نمائندہ تنظیمی ڈھانچہ جو کتاب سے متعلق دیگر گروہوں جیسے لائبریرنز، حکومتی اداروں، ترویج خواندگی سے متعلق عالمی اداروں اور تنظیموں سے رابطہ کا اہل ہو، یقیناً اردو زبان میں کتاب اور ڈیجیٹل کتاب کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان میں اردو زبان میں کتاب کی تیاری، طباعت اور فروخت کا موجودہ نظام اور اس سے وابستہ افراد اور اداروں کی مالی، تکنیکی اور علمی اہلیت ، تجارتی سطح پر اردو دیجیٹل کتاب کے فروغ اور اشاعت سے کافی دور ہے۔ سماجی سطح پر حکومتی متعلقہ اداروں کا اردو ڈیجیٹل کتب کی اہمیت اور وجود کو تسلیم نہ کرنا، یا اسے محض کاغذ پر شائع ہونے والی کتب کا عکس سمجھنا، وہ رویہ ہے جس سے دیگر متعلقین براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ قومی کتب خانہ،اسلام آبادمیں حکومتی سطح پر اردو میں ڈیجیٹل کتب کو ذخیرہ کا حصہ بنانے کی اہلیت ہے اور نہ ہی اس سے متعلق دستاویزات ’قومی کتابیات ‘کا حصہ بنائی جاتی ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی اب تک کی مساعی کاغذ پر شائع ہونے والی کتب سے متعلق ہیں؛اردو سائنس بورڈ،ادارہ فروغ قومی زبان(مقتدرہ قومی زبان)، اکادمی ادبیات اور مرکزی و صوبائی وزارت تعلیم میں سے کوئی بھی ادارہ اب تک نہ ڈیجیٹل کتب کے حوالے سے کوئی پالیسی تیار کرپایا ہے ،اور نہ ہی اس کے فروغ کے لیےکوئی اقدام کیا گیا ہے۔ حکومتی اداروں کا یہ رویہدرحقیقت اُن بڑی سماجی رکاوٹوں کا عکاس ہے جہاں پاکستان بھر میں خواندگی کی انتہائی کم شرح، اور اقتصادی حالت کی زبوں حالی سے ، کتاب اور مطالعہ کی کسی بھی صورت کا فروغ، واضح ترجیحی پالیسی اور اقدامات کا طالب ہے۔ ملک میں توانائی کا بحران اور صارفین کی کمی کی وجہ سے تجارتی ادارے ڈیجیٹل صورت میں اردو کتاب شائع کرنے کو ناممکن تجربہ خیال کرتے ہیں۔ پاکستان میں اردو کتب شائع کرنے والے ناشرین کا موجودہ طریقہ تجارت یہ ہے کہ کتاب کو کم سے کم تعداد( بالعموم ایک ہزار)میں شائع کرکے اسے ملک بھر کے یقینی خریداروں تک پہنچا یا جائے ، اورکتاب کے اس منافع کو مد نظر رکھ کر کاروبار کو پھیلایا جائے ۔ اس طریقہ کار کو سامنے رکھتے ہوئے ، اردو میں ڈیجیٹل کتب کے فروغ کے لیے یہ عملی اقدام حکومتی پالیسی کا منتظر ہے، کہ کتاب کی صنعت سے وابستہ بڑے ناشرین کو یہ ضمانت دی جائے کہ ان کیتیار کردہ اردو ڈیجیٹل کتاب ،حکومتی اور علمی اداروں میں کم از کم تعداد میں خریدی جائے گی۔ ان ڈیجیٹل کتب سے جامعات اور لائبریریوں میں استفادہ کیا جائے تو کاپی رائٹ کے خلاف ورزی سے ممکنہ نقصان کا خوف ناشرین سے جاتا رہے گا اور ملک میں تجارتی سطح پر اردو ڈیجیٹل کتب کا فروغ ممکن ہوگا۔ غیر تجارتی اور علمی سطح پر اردو زبان میں ڈیجیٹل کتب عالمی اور ملکی ادارے اور تنظیمیں بڑے پیمانے پر فروغ دے رہی ہیں۔ اس عمل کو تیز کرنے کے لیے مصنفین اور ناشرین کو اردو کمپیوٹر کی بنیادی، دو ماہ کی تربیت دینا، جس سے وہ کتاب کمپیوٹر پر تیار کرنے اور اسے عالمی سطح پر موجود ویب سائٹس جیسے ’انٹرنیٹ آرکائیو ‘پر اپ لوڈ کرنے کے اہل ہوں سکے، یقیناً بہت بڑے پیمانے پر علمی خزانوں کی تحفیظ اور ترویج کا باعث بن سکتا ہے۔ اس تحقیق کے دوران اردو زبان میں کتاب اور ڈیجیٹل کتاب کے فروغ میں مزاحم سب سے بنیادی عنصر کی نشاندہیاس موضوع پر تحقیق کے عدم وجود کے طور پر کی جاسکتی ہے۔ کتاب، عادات مطالعہ، معیاری بندی، طباعتی قوانین اور اس جیسے کسی بھی موضوع پر عملاً تحقیق اور اعداد و شمار دستیاب ہی نہیں ہیں۔ ما سوائے چند جامعات کی سندی تحقیق کے، جو ایم فل، پی ایچ ڈی کی سطح پر طالب علمانہ تحقیق ہے، اردو کتاب کے حوالے سے تجارتی یا علمی حکومتی سطح پر کوئی تحقیقی کوشش نظر نہیں آتی۔ اگر خواندگی، تعلیم، آگاہی اور طباعت سے متعلق عالمی و ملکی تنظیمیں اور ادارے، اردو زبان میں کتاب کے حوالے سے تحقیقی منصوبے ترتیب دیں ، تو یقیناً یہ اردو ڈیجیٹل کتب کی راہ میں حائل بہت بڑی عملی مشکل کا دور کرنے کا باعث ہوگا۔ کسی بھی زبان میں کتاب کی دو بنیادی وظائف ،علم اور معلومات کی حفاظت اور ان کا ابلاغ ہوتا ہے۔ یعنی کتاب زمانی و مکانی محدودات سے ماورا ہوکر اپنے اور اپنے عہد کے بعد کے انسانوں تک ترسیل علم کا ذریعہ ہوتی ہے۔ باب اول کے حصہ)(1.1.4میں یہ تخمینہ دیا گیا ہے کہ دنیا میں کل محفوظ رہ جانے والی کتب کی تعداد 13کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اردو زبان کی اولین کتاب 1743ء میں شائع ہوئی۔ تب سے موجودہ برس )(2018تک، 275برس میں اگر ہر برس دس ہزا ر کتب کی اوسط تسلیم کرلی جائے تب بھی اردو کی کل کتب کی تعداد محض 27لاکھ 50ہزار تکپہنچتی پاتی ہے۔ اس تعداد میں قلمی نسخے ،اہم جرائد اور مطبوعات کو شامل کرکے ، اسے دگنا بھی تسلیم کرلیا جائے تو ، کل تعداد 50لاکھ کتب بنتی ہے۔ اس باب کے آغاز میں،بریوسٹرکیہلکےنقلکردہقولکومعیاربنایاجائےتواردوکیتمامکتبکو،اُنکیجمعآوریکے اخراجات کو نکال کر، محض پانچ میل لمبی ہائی وے کی تعمیر کی لاگت سے ڈیجیٹل صورت دی جاسکتی ہے۔ یہ تمام اعدادو شمار اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی رفتار اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اگر ریاستی سطح پر درست فیصلہ سازی کی جائے تو محض ایک عشرے بعد ،اردو کی تمام کتب کسی بھی صارف کو موبائل فون اور لیپ ٹاپ میں فراہم ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ علم کے اس قدر وسیع خزینے کے باعث ، تحقیق اور علم کی ترقی اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی ترقی اس کا لازمی نتیجہ ہوگا۔ علاوہ ازیں ، اردو میں شائع ہونے والی کتب اگر تجارتی بنیادوں پر تیار اور فروخت کی جاسکیں، تو دنیا بھر میں اردو قارئین کم قیمت اور بہتر معیار اور رفتار پر کتب کے وسیع خزینے سے استفادہ کے اہل ہوسکیں گے۔اس سے نہ صرف علمی معیار میں اضافہ ہوگا ،بلکہ خود اردو زبا ن کی ترقی یقینی ہوگی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث ان تمام خوش گوار امکانات کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے بنیادی شرط ، اردو ڈیجیٹلکتب کی اشاعت میں حائل رکاوٹوں کا ادراک اور ان کو دور کرنے کے عملی اقدامات ہیں۔ زیر نظر مطالعہ اس اہم علمی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تحقیق کے طالب علم کی حیثیت میں، اردو ڈیجیٹل کتب کی راہ میں حائل تکنیکی، پیشہ ورانہ اور سماجی رکاوٹوں اور ان کی نوعیت کے تعین کی .ایک غیر جانبدارانہ ،علمی اور تحقیقی کوشش تھی