Abdul Hamid
Virtual University of Pakistan
Public
Lahore
Punjab
Pakistan
2019
Completed
Software Engineering
English
http://vspace.vu.edu.pk/detail.aspx?id=384
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676721039375
مولانا عبدالسلام ندوی
گزشتہ مہینہ مولانا عبدالسلام ندوی کی وفات اردو زبان کے علمی اورادبی حلقوں کے لیے ایک بڑا الم ناک سانحہ ہے۔مرحوم کاسب سے بڑاوصف اور کمال جس میں مشکل سے ہی کوئی اُن کاحریف ہوگایہ تھا کہ وہ صرف ایک نامور مصنف، بلندپایہ ادیب اورنقد سخن کے بہترین جوہری تھے، اس حیثیت سے وہ لیلی علم وادب کومخاطب کرکے بجاطورپر کہہ سکتے تھے کہ :
’’سب سے بیگانہ ہے اے دوست شناسا تیرا‘‘
۱۹۲۸ء میں امرتسر میں ندوۃ العلماء کے سالانہ جلسہ کے موقع پر راقم الحروف کو مولانا ابوالجلال ندوی اورمولانا نورالحق ندوی جواُس وقت نئے نئے مصر سے واپس آئے تھے ان دونوں کی معیت میں مولانا مرحوم سے ملاقات کا پہلا اورآخری بھی، شرف حاصل ہوا تھا۔یہ ملاقات جس طرح ہوئی،مولانا کو جس وضع قطع میں دیکھااوراُن سے جو گفتگو ہوئی، اگرکوئی اورہوتاتویقینا بدگمان ہوجاتالیکن میرے دل پراُس کاخاص اثر ہوا اوراُن کے فطری مصنف اورادیب ہونے کا جزم ہوگیا اوربے ساختہ زبان سے تمکین دہلوی کایہ شعر نکل گیا:
آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے
سب کی ہے تم کو خبر، اپنی خبر کچھ بھی نہیں
مرحوم کی عبارت سادہ مگر شگفتہ اوربہت سلجھی ہوئی ہوتی تھی۔ جس موضوع پرگفتگو کرتے تھے اُس کے تمام پہلوؤں کامکمل تجزیہ کرکے ہرپہلو پرسیرحاصل بحث کرتے تھے، اس لیے اُن کاطرزنگارش صرف پڑھنے میں دلچسپ ودل نشین نہیں تھا بلکہ یقین آفرین بھی تھا۔مولانا شبلی نے اپنے شاگرد کے اس وصف طبعی کو پہلے ہی تاڑلیا تھا اوروہ اس کے بڑے قدران تھے۔چنانچہ اُن کے مکاتیب میں مرحوم کی نسبت جو حوصلہ افزاتاثرات وخیالات ملتے ہیں وہ اُن کے کسی دوسرے شاگرد یہاں تک کہ سید صاحب کے متعلق بھی نہیں ملتے۔ بیسوں مقالات کے علاوہ مرحوم کی مستقل تصنیفات تاریخ وفلسفہ،اخلاق،شعروادب اورتنقید سے متعلق ہیں،اردو ادب کاایسا قیمتی سرمایہ ہیں...