Yasir Farooq
Muhammad Saad Siddique
Department of Islamic Studies,
Mphil
University of the Punjab
Public
Main Campus
Lahore
[Select option]
Pakistan
2015
2017
2017
2017
Completed
240
Principles of Hadith
Urdu
علل، اسناد، ، متون، حدیث، ، اختلافِ فقہاء
elal, chain, hadith, jurists, conflicts,
https://kitabosunnat.com/kutub-library/alal-asnad-w-matoon-k-ikhtlaf-fiqah-pr-asrat
سنت سے استدلال واستنباط میں کئی عوارض اور عوامل ایسے پیش آئے جن سے مختلف مذاہبِ فقہیہ کو وجود ملا۔مثال کے طور پر ایک امام یا فقیہ کے ہاں دورانِ استدلال سامنے آنے والی حدیث میں کوئی مخفی سبب ہوتا ہےجو کسی دوسرے کے سامنے نہیں ہوتا۔لہٰذااستدلال میں اختلاف آجاتا ہے۔اسی طرح بسااوقات کسی فقیہ کے سامنے کسی خاص مسئلہ میں حدیث صحیح ہوتی ہے جبکہ اس کے بالمقابل دوسرے کے پاس ضعیف،جس سےاستدلال میں تنوّع آجاتا ہے۔یہ سب مصنوعی عوامل و اسباب ہیں جن پر فقہی مذاہب کی بنیاد پڑی۔ان کا تذکرہ اور ان جیسے دیگر عوامل کا استقصاء کرتے ہوئے علماء نے مستقل تصانیف لکھیں۔اسی طرح کے اسباب جن کی بنا پر فقہاء کے مذاہب مختلف ہوئے ہیں اور ان کے اسالیبِ اجتہاد میں تنوّع پیدا ہوا ہے وہ احادیث میں موجود ’علل‘ہیں اور یہ جن احادیث میں پائی جاتی ہیں ان کو ’معلّل‘کہا جاتا ہے۔لغوی اعتبار سے ’معلّل‘، أعلّ کا اسم مفعول ہے۔ حدیث کے ماہرین کی نزدیک لفظ معلل کا استعمال غیر مشہور معنی میں ہے اور وہ ہے کمزور اور مسترد کیا ہوا۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں کسی پوشیدہ خامی کی وجہ سے اس کا صحیح ہونا مشکوک ہو گیا ہو اگرچہ بظاہر وہ حدیث صحیح لگ رہی ہو۔ اگر کسی حدیث کے راوی پر ‘وہمی‘ ہونے کا الزام ہو تو اس کی حدیث معلل ہو جاتی ہے۔جبکہ ’’علل‘ ‘ جس کی مفرد علت ہے، ایسی پوشیدہ خامی کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں حدیث کے صحیح ہونے پر اعتراض کیا جا سکے۔ حدیث کے ماہرین کے نزدیک ‘علت‘ کی دو لازمی خصوصیات ہیں: ایک تو اس کا پوشیدہ ہونا اور دوسرے اس کے نتیجے میں حدیث کی صحت کا مشکوک ہو جانا۔اگر ان دونوں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو حدیث کے ماہرین کی اصطلاح میں اسے علت نہ کہا جائے گا۔ مثلاً اگر حدیث میں کوئی خامی ہے لیکن وہ ظاہر ہے، پوشیدہ نہیں ہے یا خامی تو پوشیدہ ہے لیکن اس سے حدیث کی صحت مشکوک نہیں ہوتی تو اس صورت میں اس خامی کو علت نہیں کہا جائے گا۔ علل حدیث کو جاننے کا علم، علوم حدیث میں مشکل ترین ہے اور اس کا درجہ دیگر علوم سے بلند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے ذریعے احادیث میں پوشیدہ خامیوں کو تلاش کیا جاتا ہے جو کہ سوائے علوم حدیث کے ماہرین کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اس علم کے ماہرین کے لئے اعلی درجے کا حافظہ، معلومات اور دقت نظر درکار ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس میدان میں سوائے چند قلیل ماہرین جیسے ابن مدینی، احمد، بخاری،ابن ابی حاتم اور دارقطنی رحمھم اللہ کے علاوہ کسی نے قدم نہیں رکھا۔ ’’علل‘‘کی پہچان ایک بہت ہی دقیق اور خالص علمی وتحقیقی نوعیت کا کام ہے۔جس کی معرفت نہایت راسخ العلم اور اسماءرجال سے گہری واقفیت کے حامل علماء ومحدثین ہی رکھتے ہیں۔اس لیےکہ روایات میں موجود مخفی اسباب کا علم اس وقت تک نہیں ہوسکتاجب تک کہ حدیث کے متون اور اسناد نیز روات کے احوال وآثار پر کامل دسترس اور عبور نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس علم میں کبار اورمشاہیر کے علاوہ کسی نے قلم نہیں اٹھایا۔ان کی کتب اس علم میں انتہائی جامعیت اور معنویت ومانعیت کی حامل ہیں۔تاہم ان سے استفادہ ہرکس وناکس کے بس میں نہیں۔لہٰذا ان سے استفادہ کی غرض جو کہ بعد ازاں عوامّ کے لیے بھی مفید ہو اس موضوع کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کردینے والاامر ہے۔زیرِ نظر مقالہ ایم فل علومِ اسلامیہ کی سند کے حصول کے لیے پیش کیا گیا ہے ،جس میں محقق نے نہایت ہی جانفشانی اور عرق ریزی سے علم عللِ احادیث کو موضوع بناکرفقہ اسلامی پر اس کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔اس مقالے کا عنوان ’’عللِ اسنادومتون کے اختلافِ فقہاء پر اثرات‘‘ہے،جودرج ذیل اعتبارات سے اہمیت کاحامل ہے: موضوع ھٰذا فقہ ِاسلامی میں فقہاء کے اسالیبِ اجتہادکی ’’علم علل الحدیث‘‘کی روشنی میں تفہیم کا ذریعہ ہے،’’علم علل الحدیث‘‘کااختصاصی مطالعہ اس تحقیق میں حاصل ہوتا ہے،حدیث وفقہ میں فقہاء ومحدثین کےاجتہادی ومستنبط احکامات ومسائل کی بنیادیں واضح ہوتی ہیں،ان اصول وقوانین کا ادراک ہوتا ہے جن پر چلتے ہوئے محدثین نے عللِ احادیث پر اطلاع پائی اور فقہاء نے ان کی رعایت رکھتے ہوئے اپنے اپنے استدلالات پیش کیے۔اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ امت کے لیے فقہاء کے ان علل کی بنیاد پراختلافات جو کہ اجتہادی ہیں،ان میں وسعت کا پہلو سامنے آتا ہے۔مسائل واحکام کے استنباط میں فقہاء نے جب اختلاف کیا تو درحقیقت یہ ترجیح وعدمِ ترجیح کی صورتیں ہیں،جن میں بہرحال گنجائش موجود ہے کہ دلائل کی بنیاد پر کوئی بھی موقف راجح قرار دیا جاسکتا ہے۔
2021-02-17 19:49:13
2023-02-19 12:33:56
1676721043961
شعبہ مالیات کے امین
افسوس ہے کہ ۱۴؍ ستمبر کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شعبہ مالیات کے امین و معتمد، دنیوی زندگی کی امانت کو ادا کرنے کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جاملے، وہ استاذ الاساتذہ محمد سمیع صدیقی مرحوم کے صاحبزادے تھے جن کا تعلق ندوے سے مکانی ہی نہیں روحانی بھی ہمیشہ رہا، وہ ندوہ اور خصوصاً مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے عاشقوں میں تھے اور خود ایک باکمال اہل قلم تھے، ایسے باکمال کا اٹھ جانا بڑا سانحہ ہے، اﷲتعالیٰ ان کے حسنات کو قبول فرما کر بلند درجات سے نوازے۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، ستمبر ۲۰۱۰ء)