ہفت افلاک کا عنوان ہوا کرتا تھا : جب ستارہ مر ا ذیشان ہوا کرتا تھا
چین اس کو بھی گھڑی بھر کو میسر نہیں تھا : اُن دنوں میں بھی پریشان ہوا کرتا تھا
اُن دنوں دھول تھی اتنی نہ دھؤاں پھیلا تھا : دیکھ لینا تجھے آسان ہوا کرتا تھا
خال و خد حسن کا معیار بڑھا دیتے ہیں : میں اُسے دیکھ کے حیران ہوا کرتا تھا
پھر کسی نے دلِ ویران کا در باز کیا : یہ علاقہ تو بیابان ہوا کرتا تھا
ہے کوئی اُس سا حسیں شخص تو آگے آئے
پورے کیمپس میں یہ اعلان ہوا کرتا تھا
٭
آج محفل میں اسے دیکھ کے یاد آئی بہت
داستاں چاند کی جو ہم نے سنی نانی سے
اس ستم گر سے مجھے زخم ملیں گے جتنے
وہ منالے گا مجھے اتنی ہی آسانی سے
جب سے آئے ہیں خریدار چراغوں کے نوید
تیرگی بڑھنے لگی شہر میں تابانی سے
The leadership of nations is a role designated for prophets and messengers of Almighty Allah, they executed this duty with utmost excellence. Their distinctive leadership and skills were guided by divine revelation, complemented by inherent natural abilities crucial for guiding people. Following the era of prophets and messengers, scholars, reformers, and noble rulers who succeeded them drew from this pure source. They derived principles of governance and successful leadership methodologies from the divine revelations, administering their people adeptly and fostering the consolidation of Islam in their lands. However, in later eras, these foundational elements waned. Many leaders disregarded the noble Islamic values they inherited. Consequently, weaknesses seeped in, and successful, impactful leadership shifted to other groups.
I have compiled the principles of leadership advocated by the prophets and messengers, particularly the final messenger, Prophet Muhammad ﷺ,I gave some examples of the leaders among this Ummah, It showcase exemplary leaders from our glorious history and provide guidance on returning to that greatness by reverting to the landmarks of leadership illustrated by the Prophet ﷺ, It's in this return that the restoration of our former glory can be realized.
خواجہ حیدر علی آتش کا شمار کلاسیکی غزل گوشعرا میں سر فہرست ہے۔ آتش نے اردو غزل کی صنف کے اپنے زمانہ کے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں متعبر انداز میں جذبات و احساسات کے لائق بنایا۔ آتش نے زبان کے سُقم کو دور کیا اور اسے فارسی کے مقابلے میں زیادہ سہل،آسان اور اظہار و ابلاغ کا ذریعہ قرار دیا۔ آتش کے کلام میں علم بیان اور بدیع کے جملہ عناصر زیرِ بحث ہیں۔ میرے اس مقالہ میں آتش کی فکری و فنی اور لسانی خدمات کے حوالے سے تحقیقی و تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مقالہ کے ذریعے آتش کے دیوان غزلیات کی تمام تر لفظیات، تراکیب،تلمیحات اور محاورات وغیرہ کا فرہنگ ترتیب دیا گیا ہے۔ آتش نے الفاظ کا استعمال جس قدر تنوع کے ساتھ کیا ہے۔اس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آتش ناسخ سے زیادہ زبان شناس اور لکھنو کی شعری روایت کا صحیح نمایندہ ہے۔