محمد فریاد
International Islamic University
Public
Islamabad
Islamabad
Pakistan
Completed
197
Urdu
م ح ک MS 891.4391
2021-02-17 19:49:13
2023-01-06 19:20:37
1676721639155
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
International Islamic University, Islamabad, Pakistan | ||||
Mphil | Riphah International University, Faisalabad, Pakistan | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
PhD | University of Karachi, Karachi, Pakistan | |||
PhD | Government Islamia College, Lahore, Pakistan | |||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
MA | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
PhD | University of Karachi, Karachi, Pakistan | |||
MA | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
MA | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | TWU, ملتان | |||
PhD | University of Sindh, Jamshoro, Pakistan | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, Bahawalpur, Pakistan | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
PhD | University of the Punjab, Lahore, Pakistan | |||
PhD | Qurtuba University of Science and Information Technology, Peshawar, Pakistan | |||
PhD | Bahauddin Zakariya University, Multan, Pakistan | |||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
صہباؔ لکھنوی
صہبا لکھنوی مدت سے بیمار تھے، وہ خلقتاً بھی نحیف اور کمزور تھے، اس کے باوجود افکار کی ترتیب و ادارت اور اس سے متعلقہ کاموں کی نگرانی کرتے تھے، بالآخر ۳۱؍ مارچ ۲۰۰۲ء میں پیامِ اجل آگیا، مرحوم ’’افکار‘‘ کے بانی مدیر تھے اور صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو صلہ و ستائش سے بے پروا ہوکر ادب پروری اور صحافت وادب کے فروغ کے لیے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوتی تھی۔
صہبا صاحب کا اصل نام سید شرافت علی تھا، ان کا آبائی وطن لکھنؤ تھا، مگر وہ ۲۵؍ دسمبر ۱۹۱۹ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے تھے، تقسیم سے پہلے یہیں رہایش پذیر تھے اور ۱۹۴۵ء میں یہیں سے ماہنامہ افکار جاری کیا اور اپنی ساری قوت و توانائی اسی میں لگا دی، ان میں شعر و ادب اور نقد و نظر کی جو صلاحیتیں اور قابلیتیں پنہاں تھیں۔ ان کو افکار کے لیے قربان کردیا اور اپنے نوک خامہ سے دوسرے ارباب قلم کی تحریریں چمکاتے اور افکار میں شایع کر کے ان کی ہمت و حوصلہ بڑھاتے اور ان کی عزت افزائی کرتے، انہوں نے بڑے بڑے ادیبوں کی تحریروں کے معاملے میں اپنا حقِ ادارت محفوظ رکھا اور ان کی کوئی رورعایت نہیں کی۔
تقسیم کے بعد کراچی آئے تو افکار نے یہاں سے دوسرا جنم لیا، صہبا صاحب مالی مشکلات اور دوسری پریشانیوں سے دوچار ہوئے اور لوگوں کی نکتہ چینی کا نشانہ بنے مگر افکار کی خدمت و ترقی میں ہمہ تن منہمک رہے، رات دن اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے افکار ہی ان کے دل و دماغ پر چھایا رہتا تھا، ان کے پاس زیادہ سرمایہ نہ تھا لیکن جو کچھ اور جس قدر تھا سب افکار کی نذر کردیا۔ اپنے بعد بھی اس کو جاری رکھنے کے لیے افکار فاؤنڈیشن...