جیل سے خط
شاہی قلعہ سے جیل منتقلی کے بعد اگر کسی سیاسی قیدی کو خط لکھنے کی ضرورت پڑتی تو وہ ضرورت سپرنٹنڈنٹ جیل کے ہفتہ وار دورے کے دوران اجازت طلب کرتا ہے سپرنٹنڈنٹ صرف اپنے قریبی عزیز کو خط لکھنے کی اجازت دیتا ۔دورے کے فوراً بعد جیل کا منشی جو عموماً جیل کے پرانے قیدی ہوتے ہیں بھیجا جا تا وہ خط لکھتا ۔اس کے بعد وہ جیل کا کوئی افسر سینسر کرنے کے بعد سپرد ڈاک کر تا ہمیں خط لکھنا تو درکنار کاغذ پنسل رکھنے کی اجازت نہ تھی پھر بھی ہم بال پین کی ریفل چھپا کر رکھتے تھے اور سگریٹ کی پنیوں کو لیٹر پیڈ کے طور پر استعما ل کرتے اور جو ملاقاتی آتے چھپا کر لے جاتے 1985ء جو نیجو حکومت بننے کے بعد لکھنے پڑھنے کی مکمل آزادی مل گئی اس طرح عزیزوں دوستوں کو خط لکھنے لگے ۔پاکستان کی دوسری جیلوں میں مقید سیاسی قیدیوں سے رابطہ آسان ہو گیا ۔حتی کہ میری آسٹریا،ویا نا میں قید اپنے جیالوں یعقوب چینا اور اور مرزا اختر بیگ سے خط و کتابت ہونے لگی ۔خاص خط پھر بھی باہر کسی دوست کے پتے پر منگوائے جاتے جبکہ عام خط جیل کے پتے پر ہی منگوائے جاتے مگر جیل حکام خط کھول کر دیکھتے پھر اس پر سینسر کی مہر لگاتے اوپر خط میں وہ مبہم سی مہر نظرآ تی ۔
خطوط کا مزہ اس وقت آ یا جب پوری دنیا سے تمام سیاسی قیدیوں کو ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ممبران کی طرف یک جہتی اور نیک خواہشات کے سینکڑوں ہزاروں کارڈز ملنے شروع ہوئے مغربی ممالک سے آئے ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ممبران ان خطوط کا جیل حکام پر بھی بہت اثر ہوا اور بہتر سے بہتر انداز میں پیش آ...
تهدف هذه الدراسة للرجوع إلى موضوع نقد المتن عند المحدثين للكشف عن جهودهم في الدفاع عن السنّة النبوية الشريفة عن طريق نقد ما لا يصح من المتون، فموضوع الدراسة بقدر ما هو واضح المعالم وبيّن إلا أن الخطأ فيه لا يُغتَفر كون أنَّه يتعلق بحفظ السنّة، ولقد اعتمد الباحث على المنهج الوصفي التحليلي القائم على سرد وتحليل الأحاديث المتعلقة بالموضوع، وتوصل الى عدّة نتائج أهمها أن: المحدث في حالة النقد ينظر الى السند والمتن معاً على حد سواء، وأن جهود العلماء المتقدمين في نقد المتون متنوعة بحسب الفن التحديثي، وقد أوصى الباحث بضرورة تجميع وترتيب جهود العلماء المتقدمين والمتأخرين حسب التخصص لحل إشكالية نقد المتون عند المحدثين.
الكلمات المفتاحية: نقد المتن، المحدثون، السنة النبوية، السيرة النبوية، الحديث الشريف.
The present study was conducted to examine the performance of social entrepreneurs (NGOs) of Lahore in
Pakistan. The purpose of this study was to examine the impact of social entrepreneurs (NGOs) on income level,
standard of living and empowerment of those people who are getting facilitated by social entrepreneur's work,
namely Beneficiaries'.
The study was further divided into two studies. In both studies work of social entrepreneurs (NGO's) was the
independent variable (x) and income levels (y1), standard of living (y2) and empowerment (y3) of vulnerable
groups like children, women, religious minorities, and those who live below the poverty line were the
dependent variables in order to get a clearer picture of the phenomena.
In the study, purposive sampling technique was used to collect data from executives of the NGOs whereas in
study II, data was collected from 250 beneficiaries of selected NGOs. Descriptive analysis was used to analysis
the responses of respondents. It was extracted from this research that social entrepreneurs have a positive
effect on the income levels, standard of living and empowerment of poor people. A large number of poor people
came out of poverty and even became self-employed. Now people are even able to save some money from their
incomes. Current research would be beneficial for social entrepreneurs and related population.