Sharjeel ur Rehman
Muhammad Ibrar Anver
Department of Accounting & Finance
MBA
International Islamic University
Public
Islamabad
Islamabad
Pakistan
2014
Completed
37
Accounting & Finance
English
MA/MSc 658.8 SHM
2021-02-17 19:49:13
2023-01-06 19:20:37
1676721818490
شاعری میں استعارہ کی بہت اہمیت ہے ۔استعارہ کو شعر کی جان تصور کیا جاتا ہے۔ استعارہ کو شاعر اپنے تخیل سے جنم دیتا ہے۔ شاعراپنی پر چھائیوں کو جسم اور محسوسات کو زبان دے کر تخیل کی مدد سے استعارہ کو جنم دیتا ہے۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ یعنی وہ چیز جس سے تشبیہ دی جائے اور وہ بھی جس کو تشبیہ دی جائے دونوں موجود ہوتی ہیں۔ استعارے میں ان دونوں میں سے صرف ایک چیز موجود ہوتی ہے اس لیے تشبیہ میں صراحت و وضاحت ہوتی ہے ہے اور استعارے میں رمز و ابہام۔ نثر کو وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہاں تشبیہ زیادہ موثر رہتی ہے۔
شاعری میں ابہام سے حسن پیدا ہوتا ہے اس لیے استعارہ شاعری کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ اقبال ایک پیام بر شاعر تھے۔ ان کے لیے ممکن نہ تھا کہ شاعری میں پیچیدگی اور ابہام سے لوگوں کو الجھائیں ۔ اقبال کے استعارے آسان اور توضیحی ہیں۔ اقبال نے اپنے استعاروں سے اپنی شاعری کو سمجھانے کا کام کم اور تخلیقی معانی کا کام زیادہ لیا ہے۔ پروفیسر عبد الحق نے کہا ہے کہ صنائع بدائع کا بڑا ذخیرہ کلام اقبال میں موجود ہے۔ تشبیہات کی ندرت اور ان کی ارزانی پر حیرت ہوتی ہے ۔ مزید کہتے ہیں:
”استعاروں کی پوری دنیا آباد ہے“(17)
کلیات اقبال کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح بھی ہوتی ہے کہ نہ صرف استعاروں کی پوری دنیا آباد ہے بلکہ اقبال کا بنیادی شعری اسلوب بھی استعاراتی ہے۔ اقبال کی شاعری میں استعارہ جس کثرت سے استعمال ہوا ہے، اس لحاظ سے نہ تو تشبیہ کا استعمال ہوا ہے اور نہ ہی علامت کا ۔ ان استعاروں میں قاری کی دلچسپی کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اپنےاندر ابدی نظر افروزی کی...