فقیروں کابھٹو
1968ء یا 69کی بات ہے ذوالفقار علی بھٹو اندرونِ سندھ کے دورے سے اپنے گھر لاڑکانہ واپس جا رہے تھے اور سخت بخار کی حالت میںتھے ۔ان کی گاڑی ممتاز بھٹو چلا رہے تھے شہداد کوٹ اور قمبر کے نزدیک ایک مزار کے فقیروں ،ملنگوں اور درویشوں کو بھٹو کی آمد کا پتہ چلا تو انہوں نے بھٹو کی گاڑی کو وارہ پل کے مقام پر گھیر لیا ۔ممتاز بھٹو نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ بھٹو صاحب کو بخار ہے مگر نہ مانے اور انہیں اپنے ساتھ آستانے پر لے جانے پر بضد رہے ۔ذوالفقار علی بھٹو ان کا مطالبہ مان کر ان کے ساتھ گئے ۔وہاں فقیروں ،ملنگوں اور درویشوں نے بھٹو کو اپنے ساتھ چرس اور بھنگ پینے کی پیشکش کی ۔بھٹو نے کہا آپ چائے پلا دیں ۔اسی وقت ان فقیروں نے گڑ کی چائے بنا کر پیش کی اسی دوران ایک ملنگ نے درباروں والا مخصوص ہار اپنے گلے سے اتار کر بھٹو کے گلے میں ڈال دیا ۔بھٹو تیز بخار کی صورت میں کچھ دیر وہاں فقیروں کے ساتھ بیٹھے اور پھر اجازت لے کر وہاں سے لاڑکانہ چلے گئے ۔
ان فقیروں ،ملنگوں اور درویشوں اوران جیسے کروڑوں لوگوں نے …جنہیں پیپلز پارٹی مدت ہوئی فراموش کر چکی ہے ،آج تک بھٹو کو اپنے دلوں میں بسایا ہوا ہے ۔
لا يزال البحث في موضوع العقار والحقوق التي تنشأ عليه من الموضوعات الحيوية والمهمة لدى الباحثين, ويتناول موضوع البحث نطاق التصرف القانوني في الأراضي غير المسجل لدى دائرة تسجيل الأراضي المختصة في فلسطين, ومدى نقل ملكية العقار بمثل هذا التصرف, و توضيح دلالة التصرف القانوني في القوانين المتعلقة بالأراضي المطبقة في فلسطين, وما آثار حول تفسيره من خلافاً قانونياً وقضائياً واسعاً, واتبع الباحث المنهج التحليلي للقوانين المتعلقة بالأراضي و القانون المدني الفلسطيني الجديد رقم (4) لسنة 2012, مع الاسترشاد بما وقف عليه القضاء, وتوصل الباحث لنتيجة هامة, بأن التصرف القانوني في الأراضي المملوكة غير المسجل يعتبر تصرف ابتدائي يصح أن يكون سبباً للمطالبة بالتنفيذ العيني أمام القضاء, ويجوز الحكم له بالتنفيذ العيني للعقد الغير مسجل, وأوصينا بضرورة النص في القانون المتعلق بانتقال ملكية الأراضي سواء كانت أراضي مملوكة أو غيرها, على بطلان جميع التصرفات القانونية واعتبارها باطلة بطلان مطلق, وضرورة التقيد بتسجيل هذه التصرفات أمام دائرة تسجيل الأراضي, وذلك حفاظا على الحقوق وعدم اثارت النزاعات القضائية حول ملكية العقارات, لما لها من أهمية اقتصادية في الدولة.
مقدمہ
دین فہمی کے لیے جہاں قرآن و حدیث کا علم کلیدی کردار اداء کرتا ہے وہیں حدیث فہمی میں درایت حدیث ایک بنیادی امر ہےاور درایت حدیث اس وقت تک ممکن نہیں جب تک علم اسباب ورودِ حدیث،علم فقہ الحدیث ، علم مشکل الحدیث کے ساتھ ساتھ علم ناسخ و منسوخ الحدیث کا فہم حاصل نہ ہو،بلکہ حضرت ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
»مر علی علیٰ قاص فقال أتعرف الناسخ من المنسوخ؟ قال لا قال ھلکت و أھلکت«( )
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گزر ایک قصہ گو کے پاس سے ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا تمہیں ناسخ و منسوخ کا علم ہے انہوں نے عرض کیا نہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو خود بھی ہلاک ہوا اور ہلاک کررہا ہے‘‘۔
یعنی کسی بھی فن کے ناسخ و منسوخ کے علم کے بنا اس فن میں جد وجہد کرنا ہلاکت کے مانند ہے۔ کیونکہ اگر وہ ناسخ و منسوخ کے علم سے عاری رہتے ہوئے منسوخ روایت کی ترویج کرتا رہے تو یہ اس کے لیے دارین میں محرومی کا باعث ہو گا۔
یہاں یہ اشکال دور کرنا بھی ضروری ہےکہ نسخ اور نظر ثانی ہم معنیٰ نہیں بلکہ اس میں واضح فرق موجود جیسے نسخ میں ایک حکم کو دوسرے حکم سے بدل دیا جاتا ہے مثال کے طور پر پہلے ایک چیز جائز تھی پھر ناجائز قرار پا جاتی ہے یا اس کے برعکس ہو تاہے، البتہ نظر ثانی یہ ہے کہ آدمی پہلے ایک کام کا ارادہ کرے پھر اس کو ترک کر دے مثال کے طور پہ ایک آدمی سوچے کہ فلاں شخص کی طرف جاؤں پھر سوچے کہ اس کے پاس نہ جانا بہتر ہے تو اپنے فعل سے رک جائے یہ صرف انسانوں کے ساتھ ہی پیش آتا ہے اس فرق کی وضاحت یوں ہے کہ نسخ میں شارع کے علم میں یہ بات موجود ہے کہ جو حکم دیا جا رہا ہے وہ کتنے عرصے پہ محیط ہو گا جبکہ نظر ثانی کرنے واے کو اس کا علم نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے پہلا کام بھی اٹل ہی ہوتا ہے ۔( )
ایک اور اشکال کی وضاحت کر دوں کہ نسخ کا وجود حضور نبی آخر الزمان ﷺ کی اختراع نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے قبل والے سماوی ادیان میں اس کے وجود کے شواہد موجود ہیں جیسا کہ خالق کائنات اللہ رب العزت نے لاریب کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
﴿فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ وَ بِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ کَثِیرًا ﴾ ( )
’’تو یہودیوں کے بڑے ظلم کے سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں کہ اُن کے لئے حلال تھیں ، اُن پر حرام فرمادیں اور اس لئے کہ انہوں نے بہتوں کو اللہ کی راہ سے روکا۔‘‘
تو ثابت ہوا کہ نسخ یہودیوں کے ہاں بھی موجود تھا کہ حلال چیزوں کی حلت کو منسوخ کرنے کے لیے حکم حرمت نازل ہوا۔
حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم مشکل ترین مہم ہے۔ زہری کہتے ہیں، ’’حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم حاصل کرنے کی کوشش نے اہل علم کو تھکا دیا ہے۔‘‘اس علم کے سب سے مشہور ماہر امام شافعی ہیں۔ وہ اس کام میں ید طولی رکھتے تھے اور دوسروں کی نسبت اس میدان میں بہت آگے تھے۔ امام شافعی جب مصر چلے گئے تو امام احمد بن حنبل نے ابن وارہ سے کہا، ’’کیا آپ نے شافعی کی کتب لکھ رکھی ہیں؟‘‘انہوں نے کہا،’’جی نہیں۔‘‘ امام احمد کہنے لگے، ’’یہ تو آپ نے بڑی غلطی کی۔ ہم میں سے کوئی مجمل و مفسر اور حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم نہیں رکھتا تھا۔ جب ہم امام شافعی کے ساتھ بیٹھنے لگے تو ہمیں یہ چیزیں معلوم ہوئیں۔‘‘( )
اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر علامہ حازمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق کتاب الاعتبا ر میں لکھتے ہیں کہ
’’ثم ھذا الفن من تتمات الاجتہاد ، اذا الرکن الاعظم فی باب الاجتہاد معرفۃ النقل و من فوائد معرفت النقل الناسخ والمنسوخ ‘‘ ( )
’’یہ اجتہاد کا بھی تتمہ ہے کہ اجتہاد کے باب کا اہم رکن دلائل نقلیہ کی معرفت ہے اور دلائل نقلیہ کی پہچان ناسخ و منسوخ کے علم کے بغیرنامکمل ہے۔‘‘
اتنا اہم اور دقیق موضوع اس پر اردو زبان میں اتنا کام موجود ہی نہیں تھاجو قارئین و محققین کے لیے کافی و وافی ہو تو راقم نے اس موضوع پر ایم فل کی سطح کا مقالہ لکھ کر آئندہ آنے والے محققین کے لیے ایک راستہ اور میدان مہیا کیا ہے البتہ اس موضوع کا ایک اہم پہلو تاحال تشنہ ہے جو کہ دوران تحقیق واضح ہوا اور وہ ہے اصولیین کی ابحاث ،میرا عنوان چونکہ علم حدیث کی حدود میں تھا جس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، آخر میں بارگاہ لم یزل میں دعا گو ہوں کہ وہ اس کو قبول فرما کر میرے لیے ذریعہ نجات بنائے۔
مقالہ نگار
محمد حسنین رضا