فیض یابی
۱۔ تفسیر القرآن الکریم۔ حافظ عبدالسلام
۲۔ مذاہب عالم کی آسمانی کتابیں۔غلام احمد پرویز
۳۔ تاریخ طبری۔علامہ طبری
۴۔ اساطیری تہذیبیں (تہران یونیورسٹی ایران)
۵۔ تاریخ ایران۔پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی
۶۔ تاریخ فلسفہ اور ثقافتی نظام۔پنڈت سوامی رائے نظام آبادی
۷۔ زرتشت نامہ (تہران یونیورسٹی ایران)
۸۔ اردا ویراف نامہ۔ارتائی ویروف طبع تہران
۹۔ کنفیوشس ، زرتشت اور اسلام۔احمد دیدات
۱۰۔ ابتدائی فلسفہ۔ جان ہاسپرس
۱۱۔ مانویت (مانی مذہب) مسکونیہ ایرانی
۱۲۔ یونانی فلسفہ۔ڈبلیو۔ٹی۔سیٹس
۱۳۔ زیوس اور یونان۔ مائیکل ایلفرڈ
۱۴۔ ویراف سروش اور آذرایزد(ترجمہ)
۱۵۔ نشاط فلسفہ۔ول ڈیورا فٹ
۱۶۔ تہذیبی عجائب اور انسانی ارتقا۔ جان فرینکلین
۱۷ ایران کے قدیم ادبی شفاھی آثار
۱۸۔ ’’الکامل‘‘۔ ابن اثیر
۱۹۔ ’’البدیہ‘‘۔ابن کثیر
۲۰۔ بلیس ابلیس۔ علامہ ابن جوزی
۲۱۔ فلسفہ اور پران۔پنڈت شنکر اچاریہ
۲۲۔ عبرانی، سریانی مفکر۔ پروفیسر سلبر۔ تل ابیب یونیورسٹی۔
۲۳۔ تفسیر القرآن۔ علامہ طالب جوہری
۲۴۔ تفسیر القرآن۔ ڈاکٹر طاہر القادری
اس کے علاوہ زبور ، تورات، انجیل مقدس، صحائف لانبیائؑ
Malays will not disappear from the world." The oath of Admiral Hang Tuah in the 15th century seemed to have received his "luck". When UNESCO designated Bandaraya Melaka as a World Heritage City on July 7, 2008, The aim of this research is to determine what factors influence the motivation of tourists visiting the Old City area of Bandaraya Melaka. The research methodology uses quantitative descriptive analysis with a sample size of 37 people. Variable (X1): psychological motivation has no effect on tourist motivation (Y), cultural motivation variable (X2) has no effect on tourist motivation (Y), social motivation variable (X3) has an effect on tourist motivation (Y), and fantasy motivation variable (X4) has an effect on tourist motivation (Y). The R2 value is 0.682, meaning that the influence of the independent variable on the dependent variable is 68.2%. While the remaining 31.8%, other variables amounting to 31.8 percent could be from medical treatment, costs, and travel services, which were not examined in this research.
الحمد لله رب العٰلمين،خلق فقدر،ورفع فيسِّ،ولَ یجعل للی الناس فی الدين من حرج ، والصلٰوة والسلامللٰ ی رسوله اأن أمين ما خیر بين شمرين الَ اختيار شيسِّهما ما لَ يكن مش ثمً وللی آله و صحبه اجمعين ومن تبعهم باحسان الی يومالدين۔ اما بعد! موضوع کا تعارف اور ضرورت و اہمیت: اللہ رب العدت نے انسان کی تخلیق فرما کر اس کی رشد و ہدایت اور فلاح و اصلاح کے لیے انبیا اور ہر دور ? ء کومبعوث کے انساویں کی رہنمائی کے لیے دین مقرر فرمایا، جس کی لیمات ت کی روشنی میں وہ اپنی زندگی بسر کر سکیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا و خوشنودی کے مستحق ٹھہریں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے پہلے انساویں کے لیے دین کی بنیادی چیزیں مقرر فرمائی تھیں ویسے ہی مسلماویں کے لیے بھی قرآنِ مجید کو منبعٔ رشد و ہدایت قرار دیا اور ساتھ ہی اس کی عملی تعبیر و تشریح کے لیے اپنے نبی حضرت محمدصلى الله عليه وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اللہ رب العدت نے ان کی عملی تعبیر کو ساری انسانیت کے لیے حسنہ قرار د ٔ اسوہ یا اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ہدایت کی۔ مسلماویں کےلیے قرآن مجید او ر سنتِ رسولصلى الله عليه وسلم ہی بنیادی چیزیں ہیں جن سے وہ رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں اور جنہیں معیار کی کسوٹی قرار دے سکتے ہیں۔ م فطری اورعالمی دین ہےاس لیےیہ ضروری تھا کہ اس کے احکام میں لوگوں کی صفات ،احوال اور ان کے مساکن کا ? ا خیال رکھا جاتا ،اسی لئے فرائض دینیہ میں مکلفین کے حالات،انفرادی استعداد اور موقع و مناسبت کی حد درجہ رعایت رکھی گئی ہے ، کسی ل پ کا مکلف ہونا استطاعت اور قدرت سے مشروط ہے اور معاملات زندگی میں معقول ترین ،آسان ترین اور مئوثر م میں عفوودرگزر،رواداری،آسانی،نرمی اور تیسیر مسلسل دھرائے جانے ? ترین انداز اپنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دین ا قہیں،اس میں سختی،تنگی،حرج ،تلخی اور قساوت قلبی سے کام لینے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ?والے ا ہے۔ ] يُرِيدُ اللهَُّ بِكُمُ الْ يُسَِّْ وَلَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُ سِّ [ ( 1 ) ’’اللہ تعالیٰ تم سے آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا ۔‘‘ م کی صفت تیسیر کی وضاحت میں فرمایا: ? رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے دین ا إِنَّ الدِّينَ يُسٌِّْ، وَلَ وُا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَ « نْ يُشَادَّ الدِّينَ شَحَدٌ إِلََّ غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَشَبْشِِ ۃ ( 1 ) البقرہ ، 2 : 185 3 » وَالرَّوْحَةِ وَشَیْ مِنَ الدُّلَْْةِ ( 1 ) ’’بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا )اس کی سختی نہ چل سکے گی( پس اپنے ل پ میں پختگی اختیار کرو اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی اور نرمی برتو اور خوش ہو جاؤ اور صبح ،دوپہر، شام اور کچھ قدر رات کو مدد حاصل کرو۔‘‘ م میں پائی جانے والی وسعت، ? م کی توجہ دین ا ? قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر اہل ا آسانی، سہولت،نرمی،گنجائش،عدم حرج،قلّت تکلیف،دریج اور تیسیر کی طرف مبذول کرائی گئی اور رسول اللہصلى الله عليه وسلمکی بعثت کا گیا ہے کہ آپصلى الله عليه وسلم لوگوں کو بے جا پابندیوں اور ناروا بندشوں سے چھٹکارہ دلانے اور ان کی راہنمائی ? مقصد بھی یہ بیان سہولت ، وسعت ،آسانی اور تیسیر پر مبنی احکام کی طرف فرمانے کے لیے تشریف لاے تھے۔آپ صلى الله عليه وسلم کی اس صفت کا ذکراللہ ٰ تعال نے قرآن مجید میں ان الفاظ میں فرمایا: ]لَقَدْ جا کُمْ رَسُولٌ مِنْ شَبْفُسِكُمْ لَزِيزٌ لَلَيْ هِ ما لَنِتُّمْ حَرِيصٌ لَلَيْكُمْ بِالمُْؤْمِنِينَ رَؤُ رَحِيمٌ [ ( 2 ) ’’البتہ حقیقتمہارے پاس ایک ایسا رسول تشریف لایا ہے جو تمہاری جنس سے ہے جس کو تمہاری تکلیف کی بات دااں گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کا خواہش مند رہتا ہے ایمان داروں کے ساتھ بڑا ہی مہربان ا ور شفیق ہے۔‘‘ گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ? سورہ الاعراف میں بھی اس صفت تذکرہ ]وَيَضَ عُ لَن هُ مْ إِصَْ هُ مْ وَاأْن غْلالَ الَّت ی کابَتْ لَلَيْ هِ مْ [ ( 3 ) ’’اور وہ ان سے ان کے بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔‘‘ رسول اکرمصلى الله عليه وسلم نے خود اپنی بعثت کا مقصد یوں بیان فرمایا ہے : » إِنَّ اللهَ لََْ يَبْ عَثْنِی مُعَنِّتًا، وَلََ مُتَعَنِّتًا، وَلَكِنْ بَعَثَنِی مُعَلِّمًً مُيَسًِِّّا « ( 4 ) ’’اللہ نے مجھے سختی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے نہ تکلیف دینے والا بنا کر بھیجا ہے،بلکہ اس نے مجھے آسانی کرنے والے معلم کی حیثیت سے مبعوث فرمایا ہے۔‘‘ رسول اکرم صلى الله عليه وسلمنہ صرف خود لوگوں کے لئے آسانی اور تیسیر کو پسند کرتے تھے بلکہ آپ صلى الله عليه وسلمجب اپنے اصحاب کؓو کسی علاقہ میں کوئی دار اہم ذمّ ی سونپتے تب بھی ان کو لوگوں کے ساتھ نرمی،آسانی اور تیسیر اختیار کرنے کی نصیحت فرماتے ( 1 ) ب الایمان ،باب الدین یسر،حدیث نمبر: ? الجامع الصحیح ، 39 ( 2 ) التوبہ، 9 : 128 ( 3 ) الاعراف 7 : 157 ( 4 ) قاالا بالنیۃ،رماحدییث: ? ب الطلاق ،باب بیان ان تخییرامراۃ لایکون ? صحیح مسلم، 1478 4 تو انہیں یہ ہدایات ? تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلمنے جب حضرت معاذبن جبل اور حضرت ابو مو الاشعری کویمن کے لئے روانہ فرمائیں: » يَسَِِّّا وَلََ تُعَسَِِّّا، وَبَشَِِّا وَلََ تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَلَا « ( 1 ) ’’سختیوں سے اجتناب اور آسانیاں پیدا کرنا،لوگوں کو خوشیوں کے پیغام دینا اور نفرتیں نہ پھیلانا اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا۔‘‘ اسی طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے واام اناسس کو بھی یہی نصیحت فرمائی ہے کہ باہم آسانی اور تیسیر سے کام لیں سختی اور مشکلات پیدا کرنے سے اجتناب کریں۔ » يَسُِِّّوا وَلََ تُعَسُِِّّوا، وَسَكِّنُوا وَلََ تُنَفِّرُوا « ( 2 ) ’’تم سختی کی بجائے آسانیاں پیدا کرو اور آپس میں با ہم سکون کے ساتھ رہو اور نفرتوں سے ہر حال میں بچے رہو۔‘‘ آپ صلى الله عليه وسلم کے ہاں ہر معاملہ انسانی میں آسانی اور تیسیر کس قدر پسندیدہ تھی،سختی اور تشدد کس قدر ناگوار تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم ایسے آدمی کے لئے دعا فرمایا کرتے تھے جو خلق خدا کے لئے تیسر اور آسانی پر مبنی سلوک کرتا ہے اور جو لوگوں کے لئے نرمی اور گنجائش کے پہلو کو نظراندازکردیتا ہے اس کے لئے بدعا فرماتے۔ اللهُمَّ، مَنْ وَلِیَ مِنْ شَمْرِ شُمَّتِی شَيْئًا فَشَقَّ لَلَيْهِمْ، فَاشْقُقْ لَلَيْهِ، وَمَنْ وَلِیَ مِنْ شَمْرِ شُمَّ تِی شَيْئًا فَرَفَقَ بِِِمْ، « » فَارْفُقْ بِهِ ( 3 ) ’’اے اللہ جو میری امت کے کسی کام کا والی بنایا گیا اور اس نے اس پر سختی کی تو بھی اس پر سختی فرما اور جو کوئی میری امت کے کسی کام پر والی بنایا گیااور اس نے ان کے ساتھ نرمی کی تو بھی اس سے نرمی فرما۔‘‘ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کی بنیادی دار ذمّ ی اللہ تعالیٰ کے کلام کے معانی و مفاہیم کا تعین،جملات کی تفصیل،بہمات کی تبیین،مشکلات کی تفسیر،نایات کی تصریح اور اشارات کی توضیح کرناتھا۔آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی اس بنیادی دار ذمّ ی کو نبھاتے ہوئے ایسے انداز میں احکام الٰہی کی تعبیر و تشریح فرمائی کہ مسلمان احکام الٰہی پر ل پ را ا ہونے میں تنگی اور حرج میں مبتلا نہ بلکہ ہر جگہ ان کے لئے تیسیر ? ہوں، اسی لئے آپ صلى الله عليه وسلمنے مسلماویں کے لئے کسی بھی جگہ آسانی اور تیسیر کا دروازہ بند نہیں م میں تشدد،تعصب،قساوت قلبی،سختی اور حرج پیدا کرنے والے نظریات اور ? ، تاکہ دین ا ? اور آسانی کے پہلوں کواجادا رو یوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہ رہے۔ ( 1 ) ب الادب، باب قول النبی یسروا ولاتعسروا،رماحدییث: ? الجامع الصحیح، 6124 ( 2 ) ب الادب، باب قول النبی یسروا ولاتعسروا،رماحدییث: ? الجامع الصحیح، 6125 ( 3 ) ب الامارۃ،باب فضیلۃالامیر،رماحدییث: ? صحیح مسلم، 1828 5 موجودہ دور میں مسلماویں کے مزاج میں نفلی ا ت اور د ب ح ست م عبادات، ینی و دنیاوی فرائض کی ادائیگی میں بےجا سختی اور م کی آسانی اور تیسیر کے ? تعصب کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیشِ نظر، ضرورت اس امر کی تھی کہ ایسے حالات میں دین ا جائے جس کی روشنی میں تعصب،فرقہ واریت،تشدد،انتہا پسندی اور بے جاسختی پر مبنی رجحانات ،نظریات اور ? پہلوکو اجادا رو یوں کی صحیح سمت کی طرف راہنمائی کی جائے،اسی کے پیش نظر مقالہ نگار نے’’ احادیثِ نبویہ میں تیسیر۔ اسرار و حکم‘‘کے م کے تیسیر ? تاکہ ایسے افراد جو دین ا ? میہ کے دوسرے بڑے مآخذ حدیث رسول صلى الله عليه وسلم کا انتخاب ? عنوان سےشریعت ا اور آسانی کے پہلوں کو نظر انداز کرتے ہوئےویافل اورمستحبات میں اس قدر سختی سے کام لیتے ہیں کہ اپنے اور دیگرافرادکے لئے کئی ایک مشکلات اور پریشانیاں جنم دیتے ہیں وہ ان فرامین کی روشنی میں اپنے رو یوں ،رجحانات اور نظریات میں نرمی اور آسانی پیدا کرتے ہوئے راہ اعتدال کو اختیار کر سکیں۔ ? احادیث نبویہ میں تیسیر کے پہلوں کو روشن کرنے کے لیے حدیث کی بنیادی کتا سے آپ صلى الله عليه وسلم کے فرامین کا انتخاب گیاہے اور تیسیر پر مبنی احادیث کی تشریح و توضیح سلف صالحین کے نقطہ نظر کی روشنی میں بیان کرنے کے لئے شروحاتِ احادیث گیا ہے ۔ ? میں سے امہات الکتا کا سہارا مقالہ ذہ پانچ ابواب میں ٰ ٰ ہ منقسم ہے۔ گیا ہےاور تیسیر کی تائید میں قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ سے ? پہلے باب میں تیسیر اوراسرار و حکم کا معنی ومفہوم بیان دلائل بھی ذکر کئے گئے ہیں۔ دوسرے باب میں تیسیر نبویصلى الله عليه وسلمکی بنیادیں اور اسالیا کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم کی صفت تیسیر کو اجادا گیا ہے۔ ? کرنے کے لئے بائبل دس س سے بھی موازنہ پیش تیسرے باب میں طہارت کے ول ل،فرض اور نفل عبادات میں آپ صلى الله عليه وسلم کی اختیار کردہ نرمی،آسانی اور سہولت کی وضاحت کی گئی ہے۔ گیا ہے۔ ? چوتھے باب میں اصلاح معاشرہ اور دوات دین میں آپ صلى الله عليه وسلم کی آسانی اور تیسیر پر مبنی ہدایات کا جائزہ پانچویں باب میں امور جہاد اور حدود و تعریرات کے بارے میں فرامین نبوی صلى الله عليه وسلم کے اسرار و حکم کی وضاحت کی گئی ہے۔ مقالہ کے آخر میں خلاصہ بحث اور سفارشات پیش کی گئی ہیں اور مصادر ومراجع کی فہرست مرتب کر دی گئی ہے۔ م کی جو صحیح ترجمانی ہو اس کے لئے دلوں میں قبولیت کی صلاحیت عطا فرمائے ? رب کریم سے التجا ہے کہ اس مقالہ میں ا ادا اس میں کوئی کوتاہی ہو تو اس سے پہنچنے والے نقصان کو بے اثر کردے ۔آمين يارب العالمين۔" xml:lang="en_US