Ishaq, Muhammad
PhD
Sarhad University of Science & Information Technology
Peshawar
KPK
Pakistan
2016
Completed
Education
English
http://prr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/9752/1/Muhammad_Ishaq_Education_2016_HSR_Sarhad_Univ_Sci_%26_Infor_Tech_Peshawar_08.08.2016.doc
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676724703120
چاک سے اُتری خاک
ابھی آنکھوں کے دریچے کم سن اور عقل کے جگنوئوں کی روشنی مدھم تھی ،جب دل کی تاریک گلیوں سے یہ خیال اکثر کسی انجان مسافرکی طرح گزرتا کہ یہ بھٹکے ہوئے لفظوں کے سوداگریونہی کہنہ کتابوں کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں ۔ان کی سطریں طلسمی افسانوں کے سوا کچھ نہیں ۔ان کی باتیں فریب کی واضح دلیلوں کے سوا کچھ نہیں ۔بھلا لفظوں کے لمس سے کسے شفا ملی ہے ؟بھلا جملوں کی تپش سے کب پتھر پگھلے ہیں ؟مگر اک روز میں اداس شام کے غمزدہ حجرے میںجونؔ کے صحیفہ’’شاید‘‘ میں موجودغزل(نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم) کے ابتدائی اشعار کی قرأت میں منہمک تھا تو مقدس پردوں میں لپٹی ، پہلی معصوم آیت نے مجھ پر کھلتے ہوئے گواہی دی’’یہ خدا کے چنیدہ لوگ ہیں‘‘۔
دوستی جو کبھی محبت کے مہکتے پھولوں کا جزیرہ ہوتی تھی ۔ا ب د لکش مگر آتشی سانپوں کا جنگل بن چکی ہے ۔میں چاہتا تو لفظوں کی بین کے زور پر منتروں سے جکڑی پٹاری میں انھیں قید کر سکتا تھا لیکن دانستاً ایسا نہیں کیا۔یہ یونہی چاہت کا ملاوٹی دودھ پی کرنیلی رگوں میں زہر اتارتے رہیں۔میں نہیں چاہتا تھا یہ سانپ جن کی مفادی آستینوں میں پل رہے ہیں وہ میرے چاکِ گریباںکو اور تار تار کریں ۔
میں اکثر سوچتا اگر خدا نے یہ جدید حرف گر(ن۔م راشدؔ ،مجید امجدؔ،میرؔا جی )نہ بھیجے ہوتے،تو میرے لیے بھٹکنا کتنا آسان تھا۔میرے بہت سے ژولیدہ خیالات اور کومل جذبات الفاظ کا پیراہن زیب تن کیے بنا غزل کی روایتی گلیوں میں سراسیمگی اوڑھے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے یا پھر کسی روز دل و دماغ کی کسی کنج میں لاوارث لاش کی طرح پائے جاتے۔