Nadeem, Aamir.
PhD
Abasyn University
Peshawar
KPK
Pakistan
2017
Completed
Management Sciences
English
http://prr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/9393/1/PhD%20Thesis%20Final%20Submitted%20Jan%202017.pdf
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676724939734
خدائے سخن‘‘ کی نظمیں
نظم کے معنی ’’موتیوں کی لڑی‘‘ کے ہیں۔موتیوں کو لڑی میں پرونا ہے۔لیکن ادبی اصلاح میں نظم سے مراد اشعار کا وہ مجموعہ ہے جس میں کوئی ایک مرکزی خیال ہوتا ہے۔بہت زیادہ اشعار ہونے کی صورت میں خیال کی درجہ بدرجہ بڑھوتری کو ظاہر کرنے کے لیے اشعار کو مختلف حصوں میں تقسیم کر لیا جاتا ہے تاکہ نظم کے معنی اور مفہوم کو اجاگر کیا جا سکے۔نظم میں ایک خیال یا تصور کو موضوع بنایا جاتا ہے۔نظم میں اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہوتی صرف خیال کے تسلسل کو سامنے رکھا جاتا ہے۔
نظم میں موضوع کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔اس میں کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کیا جا سکتا ہے موضوع چاہے تاریخی ہویا جغرافیائی دینی ہویا دنیاوی،تہذیبی ہویا ثقافتی،معاشی ہو یا معاشرتی،سیاسی ہو یا مذہبی،قومی ہو یا انقلابی،قدیم ہو یا جدیدعلمی ہو یا ادبی غرض ہر موضوع اور دنیا کے ہر معاملے،زندگی کے ہر مسئلے اور کائنات کے ہر پہلو پر نظم لکھی جا سکتی ہے۔
موضوع کی طرح نظم کے لیے خاص ہیئت کی پابندی ضروری نہیں جس طرح نظم کا کوئی بھی موضوع منتخب کیا جا سکتا ہے اسی طرح نظم لکھنے کے لیے کوئی بھی ہیئت اختیار کی جا سکتی ہے۔اگرچہ روائیتی طور پر نظم کی کچھ خاص اصناف کے لیے خاص ہیئت مخصوص ہیں۔مگر عام طور پر نظم کے لیے کوئی خاص ہیئت مقرر نہیں کی گئی،یہ بات ہمیں عطا محمد عنبر کی نظموں کی کتاب ’’خدائے سخن‘‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔انہوں نیاپنے اس شعری مجموعہ میں جو نظمیں شامل کی ہیں۔ان کو مختلف ہیئتوں میں لکھا ہے کہیں کہیں نظم کا تاثر پھیکا پڑتا دکھائی دیتا ہیاور غزلیہ رنگ نمایا ں نظر آتا ہے۔کیونکہ آپ کی بہت ساری نظموں میں سے ایک سے...