یہ اقبال کی مرتب کردہ نہیں بلکہ کبھی کبھی اقبال اپنی باتیں ڈائری میں محفوظ کر لیا کرتے تھے۔ یہ مختصرسی یادداشتیں ہیں اور یہ سلسلہ چند ماہ تک جاری رہا۔ اقبال نے 27 اپریل 1910ء میں انہیں لکھنا شروع کیا۔ کچھ دن تک یہ سلسلہ جاری رہا پھر رک گیا۔ یہ ڈائری ان کے کاغذات سے ملی جسے جاوید اقبال نے 1961ء میں شائع کیا۔
اس کا پہلا ترجمہ ”ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی “نے کیا جو دسمبر 1973ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کا نام ”شذرات فکر اقبال تھا اور اس میں اقبال کے 125 افکار کا ترجمہ پیش کیا گیا تھا۔ یہ کتاب مجلس ترقی ادب، کلب روڈ لاہور نے شائع کی۔ اس کے بعد پروفیسر عبدالحق نے " بکھرے خیالات" کے عنوان سے اس کا ترجمہ کیا جس کے دو ایڈیشن سامنے آئے۔ پہلا 1975ء میں اور دوسرا 1985 ء میں ۔شذرات فکر اقبال چونکہ ہندوستان میں دستیاب نہ تھا اس لیے ہندوستان میں ” بکھرے خیالات “کی ضرورت پڑی۔ پروفیسر عبدالحق اس حوالہ سےکہتے ہیں:
”ترجمہ پریس میں تھا کہ یہ اطلاع ملی کہ پاکستان میں شذرات فکر اقبال کے نام
سے اس ڈائری کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ چونکہ وہ مطبوعہ ترجمہ ہندوستان میں
دستیاب نہیں ہے، اس لیے یہ ترجمہ شائع کیا جارہا ہے“ (11)
بکھرے خیالات کی نئی اشاعت میں جو کہ تیسری اشاعت ہے اور اقبال اکیڈمی (ہند) نئی دہلی نے 2015ء میں اسے شائع کیا ہے اس میں اقبال کے دریافت شدہ گیارہ خیالات کو بھی شامل کیا گیا ہے اس طرح " بکھرے خیالات " کی نئی اشاعت میں کل (136) شذرات کا ذکر ہے۔ پاکستان ہی سے اس ڈائری کا ایک ترجمہ " منتشر خیالات اقبال ” کے عنوان سے بھی ہوا ہے۔ اس کے مترجم میاں ساجد علی ہیں اس ترجمے کی...
لا يزال البحث في موضوع العقار والحقوق التي تنشأ عليه من الموضوعات الحيوية والمهمة لدى الباحثين, ويتناول موضوع البحث نطاق التصرف القانوني في الأراضي غير المسجل لدى دائرة تسجيل الأراضي المختصة في فلسطين, ومدى نقل ملكية العقار بمثل هذا التصرف, و توضيح دلالة التصرف القانوني في القوانين المتعلقة بالأراضي المطبقة في فلسطين, وما آثار حول تفسيره من خلافاً قانونياً وقضائياً واسعاً, واتبع الباحث المنهج التحليلي للقوانين المتعلقة بالأراضي و القانون المدني الفلسطيني الجديد رقم (4) لسنة 2012, مع الاسترشاد بما وقف عليه القضاء, وتوصل الباحث لنتيجة هامة, بأن التصرف القانوني في الأراضي المملوكة غير المسجل يعتبر تصرف ابتدائي يصح أن يكون سبباً للمطالبة بالتنفيذ العيني أمام القضاء, ويجوز الحكم له بالتنفيذ العيني للعقد الغير مسجل, وأوصينا بضرورة النص في القانون المتعلق بانتقال ملكية الأراضي سواء كانت أراضي مملوكة أو غيرها, على بطلان جميع التصرفات القانونية واعتبارها باطلة بطلان مطلق, وضرورة التقيد بتسجيل هذه التصرفات أمام دائرة تسجيل الأراضي, وذلك حفاظا على الحقوق وعدم اثارت النزاعات القضائية حول ملكية العقارات, لما لها من أهمية اقتصادية في الدولة.
In modern electronic warfare, physical layer security threats have evolved from traditional jammers to smart jammers. Smart jammers, due to their stealthy nature, make wireless communication systems vulnerable. They can easily deceive an Intrusion Detection System (IDS). Cyber security mainly concerns with Confidentiality, Integrity and Availability (CIA). Traditional jammers block availability of communication system whereas smart jammers disturb integrity with false availability. In this thesis, a physical layer intrusion detection system for Direct Sequence Spread Spectrum (DSSS) systems is developed against smart jammers to care about integrity and availability issues caused by smart jammers. Smart jammingnoiseismodeledaswidesensestationary,additiveandcolored. Thisrandomprocess is decomposed into a series expansion of independent and uncorrelated random variables. The decomposition helps in designing a signal-processing algorithm for Physical Layer Intrusion Detection System (PLIDS). The algorithm is easily implemented via correlators. PLIDS is evaluated using simulated electronic warfare environment and its performance is measured in terms of detection capability, precision and accuracy. By adjusting the tuning parameter, error free detection is possible. Different performance tradeoffs are observed for different values of tuning parameter. Finally, asymptotic analysis of proposed PLIDS is performed in terms of time complexity, space complexity and input scale. PLIDS helps detection of smart jammers at physical layer instead of its usual place, i.e., conventional detection using IDS installed at higher layers of TCP/IP protocol stack.