پروفیسر سید مسعود حسن
ابھی یہ سطور تمام نہیں ہوئی تھیں کہ پروفیسر سید مسعود حسن کی وفات کی اطلاع ملی، افسوس ہے کہ اردو کے پرانے خدمت گزار اٹھتے جارہے ہیں اور کوئی ان کی جگہ لینے والا نظر نہیں آتا ہے، مسعود صاحب نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف دونوں میدانوں میں بڑا قابل قدر کام کیا ہے، وہ صاحب زبان تھے اور صاحب قلم بھی، وہ بات کرتے تو ادب کے پھول جھڑتے، درس دیتے تو طلبہ ان کے علم سے مرعوب اور حسن بیان سے مسحور ہوجاتے اور قلم ہاتھ میں لیتے، تو تحقیق کے موتیوں سے کاغذ کا دامن بھردیتے وہ سرسری مضمون نویسی کے عادی نہ تھے، لکھنے سے پہلے موضوع کے تمام پہلوؤں پر غور کرتے، سارا مواد جمع کرتے اور پوری چھان بین کے بعد قلم ہاتھ میں لیتے اور پھر تحقیق کا شاہکار پیش کرتے، ممکن ہے ان کے نتائج تحقیق سے کسی کو اختلاف ہو مگر ان کی وسعتِ علم دقتِ نظر اور تلاش و تفکر سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، وفور علم کے ساتھ وہ بڑے خلیق، وضع دار اور بامروت تھے، ہر مذہب و ملت کے لوگوں سے ان کے تعلقات تھے، یہی وجہ تھی کہ سب ان کے غم میں اشکبار تھے، وہ شیعہ تھے، مگر سنیوں میں بھی اتنے مقبول تھے کہ فرنگی محل کے نامور عالم مولانا ہاشم کی امامت میں سنیوں نے بھی جنازہ کی نماز پڑھی، اﷲ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور ان کے عزیزوں اور شاگردوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (عبد السلام قدوائی ندوی، دسمبر ۱۹۷۵ء)
Journalism in Pakistan has passed through successive phases of trials and tribulations. The crises journalism had to undergo since independence had their origin both in the state policies as well as the authoritarianism embedded in the society. The book under review does not claim to divulge into the societal challenges which have emerged more visibly in the last three or four decades, especially, in the context of the spread of religious extremism and ethnic and other types of militancy in the society. Studies need to be done on these aspects as well as the external factors that have had impact on the growth and the content of media. The latter has come in the garb of globalization that has greatly affected the local environment and has come to strongly affect, if not directly dictate, what the media should encompass and present. Leaving the societal and global aspects aside, the role of the state and the successive governments has a lot to offer to be written about by way of what the media has endured in the last seventy plus years. It doesn’t need too much of pondering to conclude that the major pressures over media have come from the governments who, by and large, had been quite at unease with independent flow of information, and criticism of their policies. And, unfortunately, this process had begun right after Independence when newspapers’ and periodicals’ independent voice was tried to be silenced, and they were pressurized to toe the official line with respect to domestic and foreign policies. Pakistan’s independent journey, unfortunately, began with the imposition of black laws which prohibited dissent and curtailed freedom of expression in the strongest possible manner.
امہات المومنینؓ کی اتِ ِ ت طیبات سےامت کی خواتین کو ہمہ پہلو راہنمائی ملتی ہے۔ان کی زندگی کی معاشیاور معاشرتی سرگرمیاں خواتین کی زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کے لئے راہنمائی مہیا کرتی ہیں۔یہ سرگرمیاں نظا ِ ماتِتمیںایتیتاہمیتکیحاملہیں۔چنانچہ اس ضمن میں رسول اللہصلى الله عليه وسلم نے ازوا ِ جمطہرا ؓ تکیجسنہجپر تربیت فرمائی وہ ماررے سامنے ہے اور رہتی دنیا تک خواتین کے لیےایک نمونہ ہے۔امتِ محمدیہ کی خواتین کو اگرچہ معاشی اور معاشرتی معاملات میں مردوں کے برابر حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے لیکن بأمرِ مجبوری ایک حد کے اندر رہتے ہوئے ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے اور راہنمائی کے لیے امہات المؤمنین کی سرگرمیوں کوبنیادبنایاگیاہےتاکہدورِحاضرمیںاگراسشعبہمیںراہنمائیکیضرورتپیشآئےتوکوئیدقتنہ ہو۔ مقالہ ٰ ہذاکےموضوعکاانتخابدرج ذیل مقاصدکی بنا پر کیا گیا ہے: ۰۔تاکہامہاتالمؤمنینؓکیمعاشیاورمعاشرتیسرگرمیوںکاتاریخی و تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے۔ ۳۔تاکہخواتینکیمعاشیاورمعاشرتیسرگرمیوںکےلیےحدودوقیودکیوضاحتکیجائے۔ ۲۔تاکہعصرِحاضرکیخواتینکےلیےامہاتالمؤمنینؓ کی زندگی سے راہنمائیفرامکی جائے۔ چنانچہ ان مقاصد کے پیش نظر قرآن کریم، احادیث مبارکہ ، سیرت ِ طیبہ اور تاریخ کے تمام دستیاب شواہد کو سامنے رکھتےہوئےانمقاصدکےحصولکیحتیالوسعکوششکیگئیہے۔مقالہ ٰ ہذاکوپانچابوابمیںتقسیم کرتے ہوئے ان کے تحت ہر ممکنہ پہلو پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے تا کہ زیر بحث عنوان کا تصور مکمل طور پر واضح ہو سکے۔ چونکہ ماررا موضو ِ عتحقیقامہاتالمؤمنینؓکےبارےمیںہےلہٰذاباباولکودوفصولمیںتقسیمکرتےہوئےامہاتالمؤمنینؓ کےحالا ِ تزندگیکوختصراابیانکیا گیا ہے۔ فصل اول میں گیارہ امہات المؤمنینؓ کے احوال بیان کیے گئے ہیں اور فصل دوم ان خواتین کے بارے میں ہے جو امہات المؤمنین کے علاوہ آپصلى الله عليه وسلم کی زندگی میں آیں۔ اس فصل کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔