Search or add a thesis

Advanced Search (Beta)
Home > Criminal Procedure Code Ka Shari Asolon Ki Roshni Main Tahkiki Motaliya.

Criminal Procedure Code Ka Shari Asolon Ki Roshni Main Tahkiki Motaliya.

Thesis Info

Access Option

External Link

Author

Sultan. Ahmad

Program

PhD

Institute

The Islamia University of Bahawalpur

City

Bahawalpur

Province

Punjab

Country

Pakistan

Thesis Completing Year

2008

Thesis Completion Status

Completed

Subject

Islamic studies

Language

English

Link

http://prr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/9415/1/Sultan%20Ahmad-IUB.docx

Added

2021-02-17 19:49:13

Modified

2024-03-24 20:25:49

ARI ID

1676725296196

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Similar


پروسیجرل لاء کا تعارف قانون کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم قانونِ اصلی ہے جسے Substantive Law کہتے ہیں، دوسری قسم جسے قانونِ ضابطہ یعنی Procedural Law کہتے ہیں۔ قانونِ اصلی وہ ہے جو حقوق وفرائض کو طے کرتا ہے۔ دوسرا شعبہ وہ ہے جو ان حقوق وفرائض کے مطابق عملدرآمد کے راستے یا طریقے کو تجویز کرتا ہے۔ اسے Procedural Law کہا جاتا ہے۔ پروسیجرل کوڈ کا تعارف، ضرورت واہمیت قانونِ اصلی پر عملدرآمد کے ضوابط کو جب مدون کیا گیا تو اس مجموعے کو پروسیجر کوڈ (قانونِ ضابطہ) کا نام دیا گیا۔ قانونِ اصلی کو اس کی روح کے مطابق اطلاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے اس کی روح کے مطابق ہی طریق کار بھی وضع کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ قانون پر عملدرآمد سے حقوق والوںکو اپنے حقوق مل سکیں یا پھر خلاف ورزی کرنے والوں کو سزاوار ٹھہرایا جا سکے۔ Substantive Law یا قانونِ اصل کے لئے جب تک ان کی روح کے مطابق طریقۂ کار اختیار نہ کیا جائے تو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے کیونکہ پروسیجر کا قانون کی روح کے عین مطابق ہونا نہایت ضروری ہے۔ قانون کتنا ہی مکمل اور عمدہ کیوں نہ ہو، مگر اس سے براہِ راست فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ جب تک اس پر عمل کرنے کیلئے ایک خاص عدالتی طریق کار (Procedure) اختیار نہ کیا جائے۔ ایسا کرنے سے نتیجہ کے طور پر قانون کے سارے تقاضے (مثلاً تیز رفتاری سے اور بروقت مظلوم کی داد رسی، ظالم کو سزا اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی وغیرہ) پورے ہو سکیں گے اور قانون پر عمل کا یہ طریق کار عدالتوں کے ذریعے اختیار کیا جاتا ہے اسی طریقِ کار (ضابطے) کے تحت عدالت مختلف مقدمات سنتی ہے اور پھر انصاف مہیا کرتی ہے۔ اس طریقِ کار کے قواعد وضوابط جتنے جامع اور مؤثر ہوں گے، عدالتی نظام بھی اتنا ہی جاندار اور مستحکم ہوگا اور اگر یہ طریقِ کار ناقص ہوگا تو عدالتی نظام بھی غیر فعال اور سست ہوگا، جس کے نتیجے میں انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوں گی اور افراد معاشرہ انصاف سے محروم رہیں گے۔ لہٰذا اس طریقِ کار کو مؤثر اور جاندار ہونا چاہئے تاکہ انصاف کی جلد فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ قانون اپنی جگہ اہم سہی مگر اس سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنے کیلئے عدالتی طریقِ کار اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ عموماً نقص قانون میں نہیں ہوتا بلکہ اس کے طریقِ کار میں ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر اس کے نقائص دور کر دیئے جائیں تو قانون سے صحیح طور پر استفادہ ممکن ہو سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بھی بحث وتمحیص ہوئی۔ نیز علماء کرام پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تاکہ وہ اپنی سفارشات مرتب کرے۔ دانشوروں، صحافیوں، ریٹائرڈ ججوں اور پولیس افسروں نے بھی اپنے اپنے تاثرات پیش کئے۔ جن سے یہ بات واضح ہوئی کہ حدود کے نفاذ کے عمل کو جس عدالتی نظام کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے وہ بجائے خود محلِ نظر ہے اور نیچے سے اوپر تک اس کی ہر سطح پر مشکلات اور شکایات عملی طور پر سامنے آتی ہیں۔ ان میں سے بعض کا تعلق آرڈیننس کی بعض شقوں سے ہو سکتا ہے لیکن ان میں سے بیشتر شکایات اور مشکلات کا تعلق موجودہ عدالتی سسٹم اور اس کے پیچ در پیچ نظام سے ہے اور یہ شکایات صرف حدود کے حوالے سے نہیں بلکہ ملک کا ہر قانون اس عدالتی سسٹم کی پیچیدگی اور تہ در تہ الجھنوں سے متاثر ہے۔ فوجداری مقدمات میں اسلامی عدالتی طریق کار کو جزوی طور پر اپنا کر افغانستان اور سعودی عرب کسی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں سعودی عرب کے قیام سے قبل حجازِ مقدس میں چوری، قتل، ڈاکہ اور دوسرے جرائم عام تھے لیکن جب شاہ عبدالعزیز نے شرعی قوانین نافذ کئے اور ان پر عمل درآمد کا ایک مؤثر نظام جو اگرچہ آئیڈیل نہیں قائم کیا تو وہاں جرائم میں خاطر خواہ کمی آئی اور سعودی عرب ایک روشن مثال بن گیا، اسی طرح افغانستان میں قبائلی جنگوں کا خاتمہ اور پوست کی کاشتکاری پر کنٹرول کیا گیا، جسے دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ اگر یہ قوانین سعودی عرب اور افغانستان میں کامیاب ہوئے ہیں تو پاکستان میں ان کے غیر مؤثر ہونے کی وجہ تلاش کرنی پڑے گی کیونکہ ایک بیج اگر ایک زمین میں پھل دیتا ہے، دوسری زمین میں بھی پھل دیتا ہے لیکن تیسری زمین میں پھل نہیں دیتا تو قصور بیج کا نہیں بلکہ یا تو زمین ناقص ہے یا بیج ڈال کر اس میں پانی، کھاد وغیرہ میں کمی ہوئی ہے۔ اسلامی قانون تو شیخ سعدی کے اس قول کا مصداق ہے۔ فرماتے ہیں: باران کہ در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لالہ روید و در شور بوم و خس ’’بارش کی طبعی لطافت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں جب وہ باغیچے پر برستی ہے تو وہاں گل لالہ اُگتے ہیں اور جب شور والی زمین پر برستی ہے تو وہاں کانٹے اُگتے ہیں‘‘۔ موضوعِ تحقیق کا بنیاد ی سوال اس پس منظر میں ہمارے موضوعِ تحقیق کا بنیادی سوال یہ تھا کہ پاکستان میں جتنے بھی قوانین چاہے دیوانی ہوں یا فوجداری۔ ان تمام کے عملی نفاذ کیلئے ان ماہرین کی ضرورت ہے جو ان کے عملی نفاذ کا صحیح طریقِ کار (Procedure) بھی جانتے ہوں اور ان میں جہاں جہاں اسلامی روح ڈالنے کی ضرورت ہو وہ بھی اِن میں ڈال سکتے ہوں۔ اسلامی قوانین ہمارے ہاں بھی بنے، ان کے نفاذ کا اعلان بھی ہوا، مگر نہ تو یہ قوانین صحیح طور پر نافذ ہو سکے، نہ ہی ان سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکے کیونکہ ہم نے قوانین تو اسلام کے نافذ کئے مگر عدالتی سسٹم وہی پرانا برطانوی نوآبادیاتی دور کا باقی رکھا جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ حدود لاز کو ہی لیجئے۔ حدود لاز کا قانون اصلی (Substantive Law) تو وہی ہے لیکن ان کیلئے ضابطہ (Procedure) انگریزی قانون والا اختیار کیا گیا اور یہ زحمت گوارا ہی نہ کی گئی کہ پرانے نظام کے ناقص ہونے کا اثر حدود لاز پر کتنا پڑے گا۔ نتیجتاً لوگ اسلامی قوانین سے بیزار دکھائی دینے لگے۔ انگریزی پروسیجر کی وجہ سے پہلے ہی مرحلے میں پولیس لوگوں سے پوچھتی ہے کہ حدود لاز کے تحت مقدمہ درج کیا جائے یا کہ عام قوانین کے تحت؟ اور یہی وہ بنیادی صورت ہے جہاں سے پروسیجر کے غلط ہونے کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ مقالے کے آغاز میں راقم کافریضۂ تحقیق یہ تھا کہ مروجہ ضابطۂ فوجداری اسلامی قانون کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟ اور موجودہ ضابطۂ فوجداری اور اسلامی ضابطہ فوجداری کے بنیادی تصورات میں فرق ہے یا افراد کار اور طریق کار کا فرق ہے؟ بحث کے دوران یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مروجہ ضابطہ فوجداری اسلامی ضابطۂ فوجداری سے نہ تو مکمل مطابقت رکھتا ہے نہ ہی کلیتہً خلاف ہے بلکہ چند دفعات پر توجہ دی جائے تو اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق بنایا جا سکتا ہے اور مروجہ ضابطۂ فوجداری اور اسلامی ضابطۂ فوجداری کے بنیادی تصورات میں فرق برائے نام ہے۔ اصل فرق طریق کار اور افرادکار میں ہے۔لہٰذا طریق کار اور افرادِ کار میں تبدیلی کرکے موجودہ ضابطے کی موجودگی میں اسلامی قوانین سے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔ موضوع کی ضرورت واہمیت موضوع کی ہمہ گیریت اور اہمیت اس قدر ہے کہ اگر صحیح معنوں میں تحقیق ہو تو اس پر کام کرنے سے نہ صرف مسلمانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ غیر مسلم بھی اس سے مستفید ہو سکیں گے کیونکہ اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں بلکہ پوری انسانیت کا دین ہے۔ موجودہ دور میں موضوع کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ۔ آج کل ہمارے ہاں مقدمات کا بوجھ بہت زیادہ ہے، عدالتی پروسیجر میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں، جن کی وجہ سے انصاف کا حصول نہایت مشکل ہے، عوام پریشان مارے مارے پھرتے ہیں، زائد بوجھ اور لاتعداد مسائل سے عدالتوں کی استعدادِ کار پر منفی اثر پڑتا ہے، حکومت کا تنخواہوں اور مراعات میں، عوام کا وکیلوں کو بھاری فیسیں، منشیوں اور عدالتی اہلکاروں کو رشوت دینے میں بے شمار پیسہ ضائع ہوتا ہے، قیمتی وقت مسلسل پیشیوں اور عدالت کے چکروں میں ضائع ہو جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف عوام بلکہ عدالتی عملہ بھی پریشان ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی عدالتی طریقۂ کار کو واضح اور مؤثر انداز میں پیش کیا جائے تاکہ ججز، وکلاء، سکالرز اور دیگر متعلقہ افراد اس سے واقفیت حاصل کر سکیں اور جس سے استفادہ کا شوق ان میں پیدا ہو اور اس نظام کے عملی نفاذ کی راہ ہموار ہوسکے، یہ پروسیجر انسانوں کے دکھوں کا مداوا، مسائل کا حل اور وقت کی ضرورت ہے۔ جگہ جگہ مختصراً اس موضوع پر لکھا بھی گیا ہے لیکن کوئی اہم کام مقالہ نگار کی نظر سے نہیں گزرا۔ یہ تحقیقی کام یقینا اس سلسلے میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا کام ہے۔ جس سے اس کی ضرورت و اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اہدافِ تحقیق اس موضوع پر تحقیق کے سلسلے میں راقم نے درجِ ذیل اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے: (i قرآن وسنت کے علاوہ کتب تفسیر، کتب سیرت، کتب فقہ، کتب اصول فقہ، اسلامی عدالتی نظائر (Precedents)، کتب لغت، کتب تاریخ، کتب اسماء الرجال، مجلات و مضامین اور رپورٹس وغیرہ سے ایسے احوال و واقعات کو تلاش کیا گیا ہے جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔ (ii اس موضوع سے متعلق لکھی گئی کتب کا مطالعہ کرکے ان کے فراہم کردہ اصولوں کا جدید حالات کے تناظر میں ازسرنو جائزہ لیا گیا ہے۔ (iii قرآن وسنت، تعامل صحابہؓ و اقوالِ فقہاءؒ کی روشنی میں ہمیں فوجداری مقدمات کا جو عدالتی طریقۂ کار ملا ہے۔ مروجہ ضابطۂ فوجداری سے تقابل کرکے اسے بیان کیا گیا ہے تاکہ واضح ہو سکے کہ صحیح اسلامی عدالتی طریقہ کار کیا ہے۔ مقاصدِ تحقیق اس موضوع پر تحقیق سے مندرجہ ذیل مقاصد پیش نظر ہیں: (1 مروجہ عدالتی نظام کی اصلاح۔ (2 حقوق کو زندہ کرنا، لوگوں کو حقوق دلانے اور حقوق وانصاف کو ان کی دہلیز تک پہنچانا۔ (3 غلط پروسیجر سے اسلامی قوانین پر عمل نہیں ہو رہا۔ اب کونسا پروسیجر اختیار کیا جائے تاکہ اسلامی قوانین پر عمل ہو سکے اور ان سے صحیح استفادہ ممکن ہو سکے۔ (4 مروجہ حدود لاز کے غلط نفاذ سے عام لوگوں کے اذہان پر غلط اثر پڑا ہے، اس کی اصلاح رسول اکرم ﷺ کے اس ارشاد کے اثرات میںتلاش کرنا۔ جس میںفرمایا ہے: عن ابن عمرؓ ان رسول اﷲ ﷺ قال: اقامۃ حد من حدود اﷲ خیر من مطر اربعین لیلۃ فی بلاد اﷲ عزوجل ’’عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؓﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حدود اللہ میں سے کسی حد کو قائم کرنا اللہ تعالیٰ کے شہروں میں چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے‘‘۔ (ابن ماجہ) مواد کی فراہمی موضوع پر تحقیق کے سلسلے میں تمام فقہی کتب کے ذخیرے کو پیش نظر رکھاگیا ہے، خاص طور پر ادب القاضی کے ابواب کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ متقدمین میں حنفی فقہاء کرام میں سے قاضی شریح کی آراء وفیصلے، قاضی ابویوسف، امام محمد، امام ابوبکر الخصاف، عمر بن عبدالعزیز ابن مازہ بخاری، امام وکیع، علی بن خلیل طرابلسی، محمد بن شحنہ، مالکی فقہاء میں سے شہاب الدین ادریس قرافی، ابراہیم بن علی بن فرحون، ابن رشد، شافعی فقہاء میں سے امام الحرمین، امام شیرازی، علی الماوردی، جلال الدین سیوطی، غزالی، حنبلی فقہاء میں سے ابن قدامہ، ابن تیمیہ، قاضی شوکانی اور ابن قیم جوزی کی تصانیف پیش نظر رہیں اور ان سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ فقہ اسلامی کی متد اول کتب وشروح سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ جدید کتب میں سے سر عبدالرحیم، ڈاکٹر حمید اللہ، مجاہد الاسلام قاسمی، صبحی محمصانی، ڈاکٹر وھبہ زحیلی، محمد متین ہاشمی، جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن، استاد مصطفی زرقاء، عبدالقادر عودہ شہیدؒ، ڈاکٹر عبدالعزیز عامر، ڈاکٹر محمود احمدغازی ودیگر سکالرز کی کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کی سنٹرل لائبریری، سیرت چیئر کی لائبریری، مرکزی لائبریری بہاولپور، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی لائبریری، شریعہ اکیڈمی اسلام آباد کی لائبریری، ڈاکٹر حمید اللہ لائبریری اسلام آباد، اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد کی لائبریری اور رپورٹس، جامعہ پنجاب کی مرکزی لائبریری، جناح پبلک لائبریری لاہور، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی لائبریری، شیخ زائد اسلامک سنٹر لاہور کی لائبریری سردار پور، جھنڈیر لائبریری میلسی اور دیگر لائبریریوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ اسلوبِ تحقیق اس مقالے میں میرا اندازِ تحقیق بیانیہ ہے۔ جس کیلئے: (i موضوع کے متعلق مطبوعہ و غیر مطبوعہ مواد سے استفادہ کیا گیا ہے۔ (ii دورِ جدید کی سہولیات (مثلاً انٹرنیٹ) اور آڈیو ویڈیو مواد سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ (iii اہل علم، ماہرین قانونِ اسلامی اور اینگلو سیکسن قانون کے ماہرین سے بذریعہ سوال و جواب بالمشافہ ملاقات یا بذریعہ خط وکتابت استفادہ کیا گیا ہے۔ مقالے کو میں نے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب دفعہ نمبر 1 تا 100 پر مشتمل ہے۔ دوسرا باب دفعہ نمبر 101 تا 200 پر محیط ہے۔ تیسرے باب میں دفعہ نمبر 201 تا 400 شامل ہیں کیونکہ دفعہ نمبر 206 تا 220 اور 266 تا 366 (85) دفعات حذف شدہ ہیں، لہٰذا یہ باب 115 دفعات پر مشتمل ہے۔ چوتھا باب دفعہ نمبر 401 تا 475 پر محیط ہے کیونکہ دفعہ نمبر 476 سے نیا باب نمبر 35 شروع ہوتا ہے اور ہر باب کے مضامین و عنوانات علیحدہ ہیں اور دفعات پر بحث بھی نیا پہلو اختیار کر لیتی ہے، لہٰذا یکسانیت مواد کو مدنظر رکھتے ہوئے باب کو 75 دفعات تک مکمل کیا ہے۔ پانچواں اور آخری باب دفعہ نمبر 476 تا 565 پر محیط ہے۔ اس طرح ممکنہ حد تک ابواب کو متوازن رکھنے کی سعی کی ہے تاکہ مقالے کے حجم کا توازن و تناسب اور حسن برقرار رہے۔" xml:lang="en_US
Loading...
Loading...

Similar Books

Loading...

Similar Chapters

Loading...

Similar News

Loading...

Similar Articles

Loading...

Similar Article Headings

Loading...

مولوی سید احمد دہلوی

مولوی سید احمد دہلوی

            مولوی سید احمد صاحب دہلوی ، مولف فرہنگ آصفیہ نے جو ہماری زبان کے تنہا لغت نویس تھے، ۱۰؍ مئی ۱۹۱۸؁ء کو انتقال کیا۔ یہ سن کر افسوس ہوا کہ مرحوم کے جنازہ میں بیس پچیس آدمی سے زیادہ نہ تھے۔ (سید سليمان ندوی، مئی ۱۹۱۸ء)

طبي خدمات اور سہولیات کے تحفظ کي ضرورت: اسلامي شريعت کے چند رہنما اصول

Muslims scholars in principle agree that non-combatants are protected and that they lose protection when they directly participate in hostilities. However, the issues of defining the scope of non-combatant and that of direct participation remain contentious which resultantly cause confusions about the protection of medical personnel. The present paper digs out principles of Islamic law relating to the protection of medical personnel during armed conflict and for this purpose focuses on a doctor who works for humanity and who provides medical assistance to all and gives priority on the basis of need only. It tries to find answers to questions such as: is the doctor muqatil (combatant)? Does the act of providing medical assistance to the enemy combatants make the doctor liable for direct participation in hostilities? Does Islamic law distinguish between the legal consequences of direct and indirect participation in hostilities? After exploring the rich Islamic legal literature on the protection of medical personnel during armed conflict, the paper also examines the legal consequences of abuse of the protected status.

فقہ اسلامی کے مذاہب خمسہ

Islam being a comprehensive way of living, always thinks of the wellbeing of humanity. It came up with unity, peace, progress and prosperity. Its basic tenets are set down on the basis of solid and broad vision. That is why Islam has evolved constantly among Muslim Ummah. After the demise of the Holy Prophet (PBUH), due to the political situation, social disintegrations and sectarianism, the basic teachings were not fully followed and there came obstacles in the implementation of these universal principles. As a result the fundamental principles of Islam were neglected due to little differences in their beliefs. The minor variances were given more importance and the universal principles were disowned, so the Muslim society could not remain united even about their mutually agreed points and principles which were essential to keep Muslim society intact. Consequently, Muslims failed to save their gratitude and dignity. However there were, some intellectuals and lovers of Islam, who struggled to bring forth the commonalties of Muslim's sects to promote unity and regain the lost dignity of Muslim Ummah. Their contributions to the cause of Muslim's unity are immense which are included in this study. "Fiqh.e Moqarin" as a term, "Majma.e. Jahani.e. Tagreeb Bein.ul Madhahib" as a foundation and "Intra Faith Dialogues" a thought provoking series of dialogues, which were aimed at bringing various school of thoughts closer. This research is also a humble effort to put forward the prevailing resemblances of Islamic jurisprudence among the major five school of thoughts, so it may bring harmony, peace, affluence and tolerance to each other's ideas and beliefs. It is also intended for bridging the gaps and end up the ideological infighting among Muslims.