Search or add a thesis

Advanced Search (Beta)
Home > احادیث نبویہ میں تیسیر ۔اسرار وحکم

احادیث نبویہ میں تیسیر ۔اسرار وحکم

Thesis Info

Access Option

External Link

Author

Muhammad. Afzal

Program

PhD

Institute

University of the Punjab

City

Lahore

Province

Punjab

Country

Pakistan

Thesis Completing Year

2017-08

Thesis Completion Status

Completed

Subject

Islamic studies

Language

Urdu

Link

http://prr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/9341/1/Full%20%28Thesis%29.pdf

Added

2021-02-17 19:49:13

Modified

2024-03-24 20:25:49

ARI ID

1676725346847

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Similar


الحمد لله رب العٰلمين،خلق فقدر،ورفع فيسِّ،ولَ یجعل للی الناس فی الدين من حرج ، والصلٰوة والسلامللٰ ی رسوله اأن أمين ما خیر بين شمرين الَ اختيار شيسِّهما ما لَ يكن مش ثمً وللی آله و صحبه اجمعين ومن تبعهم باحسان الی يومالدين۔ اما بعد! موضوع کا تعارف اور ضرورت و اہمیت: اللہ رب العدت نے انسان کی تخلیق فرما کر اس کی رشد و ہدایت اور فلاح و اصلاح کے لیے انبیا اور ہر دور ? ء کومبعوث کے انساویں کی رہنمائی کے لیے دین مقرر فرمایا، جس کی لیمات ت کی روشنی میں وہ اپنی زندگی بسر کر سکیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا و خوشنودی کے مستحق ٹھہریں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے پہلے انساویں کے لیے دین کی بنیادی چیزیں مقرر فرمائی تھیں ویسے ہی مسلماویں کے لیے بھی قرآنِ مجید کو منبعٔ رشد و ہدایت قرار دیا اور ساتھ ہی اس کی عملی تعبیر و تشریح کے لیے اپنے نبی حضرت محمدصلى الله عليه وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اللہ رب العدت نے ان کی عملی تعبیر کو ساری انسانیت کے لیے حسنہ قرار د ٔ اسوہ یا اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ہدایت کی۔ مسلماویں کےلیے قرآن مجید او ر سنتِ رسولصلى الله عليه وسلم ہی بنیادی چیزیں ہیں جن سے وہ رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں اور جنہیں معیار کی کسوٹی قرار دے سکتے ہیں۔ م فطری اورعالمی دین ہےاس لیےیہ ضروری تھا کہ اس کے احکام میں لوگوں کی صفات ،احوال اور ان کے مساکن کا ? ا خیال رکھا جاتا ،اسی لئے فرائض دینیہ میں مکلفین کے حالات،انفرادی استعداد اور موقع و مناسبت کی حد درجہ رعایت رکھی گئی ہے ، کسی ل پ کا مکلف ہونا استطاعت اور قدرت سے مشروط ہے اور معاملات زندگی میں معقول ترین ،آسان ترین اور مئوثر م میں عفوودرگزر،رواداری،آسانی،نرمی اور تیسیر مسلسل دھرائے جانے ? ترین انداز اپنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دین ا قہیں،اس میں سختی،تنگی،حرج ،تلخی اور قساوت قلبی سے کام لینے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ?والے ا ہے۔ ] يُرِيدُ اللهَُّ بِكُمُ الْ يُسَِّْ وَلَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُ سِّ [ ( 1 ) ’’اللہ تعالیٰ تم سے آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا ۔‘‘ م کی صفت تیسیر کی وضاحت میں فرمایا: ? رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے دین ا إِنَّ الدِّينَ يُسٌِّْ، وَلَ وُا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَ « نْ يُشَادَّ الدِّينَ شَحَدٌ إِلََّ غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَشَبْشِِ ۃ ( 1 ) البقرہ ، 2 : 185 3 » وَالرَّوْحَةِ وَشَیْ مِنَ الدُّلَْْةِ ( 1 ) ’’بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا )اس کی سختی نہ چل سکے گی( پس اپنے ل پ میں پختگی اختیار کرو اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی اور نرمی برتو اور خوش ہو جاؤ اور صبح ،دوپہر، شام اور کچھ قدر رات کو مدد حاصل کرو۔‘‘ م میں پائی جانے والی وسعت، ? م کی توجہ دین ا ? قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر اہل ا آسانی، سہولت،نرمی،گنجائش،عدم حرج،قلّت تکلیف،دریج اور تیسیر کی طرف مبذول کرائی گئی اور رسول اللہصلى الله عليه وسلمکی بعثت کا گیا ہے کہ آپصلى الله عليه وسلم لوگوں کو بے جا پابندیوں اور ناروا بندشوں سے چھٹکارہ دلانے اور ان کی راہنمائی ? مقصد بھی یہ بیان سہولت ، وسعت ،آسانی اور تیسیر پر مبنی احکام کی طرف فرمانے کے لیے تشریف لاے تھے۔آپ صلى الله عليه وسلم کی اس صفت کا ذکراللہ ٰ تعال نے قرآن مجید میں ان الفاظ میں فرمایا: ]لَقَدْ جا کُمْ رَسُولٌ مِنْ شَبْفُسِكُمْ لَزِيزٌ لَلَيْ هِ ما لَنِتُّمْ حَرِيصٌ لَلَيْكُمْ بِالمُْؤْمِنِينَ رَؤُ رَحِيمٌ [ ( 2 ) ’’البتہ حقیقتمہارے پاس ایک ایسا رسول تشریف لایا ہے جو تمہاری جنس سے ہے جس کو تمہاری تکلیف کی بات دااں گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کا خواہش مند رہتا ہے ایمان داروں کے ساتھ بڑا ہی مہربان ا ور شفیق ہے۔‘‘ گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ? سورہ الاعراف میں بھی اس صفت تذکرہ ]وَيَضَ عُ لَن هُ مْ إِصَْ هُ مْ وَاأْن غْلالَ الَّت ی کابَتْ لَلَيْ هِ مْ [ ( 3 ) ’’اور وہ ان سے ان کے بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔‘‘ رسول اکرمصلى الله عليه وسلم نے خود اپنی بعثت کا مقصد یوں بیان فرمایا ہے : » إِنَّ اللهَ لََْ يَبْ عَثْنِی مُعَنِّتًا، وَلََ مُتَعَنِّتًا، وَلَكِنْ بَعَثَنِی مُعَلِّمًً مُيَسًِِّّا « ( 4 ) ’’اللہ نے مجھے سختی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے نہ تکلیف دینے والا بنا کر بھیجا ہے،بلکہ اس نے مجھے آسانی کرنے والے معلم کی حیثیت سے مبعوث فرمایا ہے۔‘‘ رسول اکرم صلى الله عليه وسلمنہ صرف خود لوگوں کے لئے آسانی اور تیسیر کو پسند کرتے تھے بلکہ آپ صلى الله عليه وسلمجب اپنے اصحاب کؓو کسی علاقہ میں کوئی دار اہم ذمّ ی سونپتے تب بھی ان کو لوگوں کے ساتھ نرمی،آسانی اور تیسیر اختیار کرنے کی نصیحت فرماتے ( 1 ) ب الایمان ،باب الدین یسر،حدیث نمبر: ? الجامع الصحیح ، 39 ( 2 ) التوبہ، 9 : 128 ( 3 ) الاعراف 7 : 157 ( 4 ) قاالا بالنیۃ،رماحدییث: ? ب الطلاق ،باب بیان ان تخییرامراۃ لایکون ? صحیح مسلم، 1478 4 تو انہیں یہ ہدایات ? تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلمنے جب حضرت معاذبن جبل اور حضرت ابو مو الاشعری کویمن کے لئے روانہ فرمائیں: » يَسَِِّّا وَلََ تُعَسَِِّّا، وَبَشَِِّا وَلََ تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَلَا « ( 1 ) ’’سختیوں سے اجتناب اور آسانیاں پیدا کرنا،لوگوں کو خوشیوں کے پیغام دینا اور نفرتیں نہ پھیلانا اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا۔‘‘ اسی طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے واام اناسس کو بھی یہی نصیحت فرمائی ہے کہ باہم آسانی اور تیسیر سے کام لیں سختی اور مشکلات پیدا کرنے سے اجتناب کریں۔ » يَسُِِّّوا وَلََ تُعَسُِِّّوا، وَسَكِّنُوا وَلََ تُنَفِّرُوا « ( 2 ) ’’تم سختی کی بجائے آسانیاں پیدا کرو اور آپس میں با ہم سکون کے ساتھ رہو اور نفرتوں سے ہر حال میں بچے رہو۔‘‘ آپ صلى الله عليه وسلم کے ہاں ہر معاملہ انسانی میں آسانی اور تیسیر کس قدر پسندیدہ تھی،سختی اور تشدد کس قدر ناگوار تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم ایسے آدمی کے لئے دعا فرمایا کرتے تھے جو خلق خدا کے لئے تیسر اور آسانی پر مبنی سلوک کرتا ہے اور جو لوگوں کے لئے نرمی اور گنجائش کے پہلو کو نظراندازکردیتا ہے اس کے لئے بدعا فرماتے۔ اللهُمَّ، مَنْ وَلِیَ مِنْ شَمْرِ شُمَّتِی شَيْئًا فَشَقَّ لَلَيْهِمْ، فَاشْقُقْ لَلَيْهِ، وَمَنْ وَلِیَ مِنْ شَمْرِ شُمَّ تِی شَيْئًا فَرَفَقَ بِِِمْ، « » فَارْفُقْ بِهِ ( 3 ) ’’اے اللہ جو میری امت کے کسی کام کا والی بنایا گیا اور اس نے اس پر سختی کی تو بھی اس پر سختی فرما اور جو کوئی میری امت کے کسی کام پر والی بنایا گیااور اس نے ان کے ساتھ نرمی کی تو بھی اس سے نرمی فرما۔‘‘ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کی بنیادی دار ذمّ ی اللہ تعالیٰ کے کلام کے معانی و مفاہیم کا تعین،جملات کی تفصیل،بہمات کی تبیین،مشکلات کی تفسیر،نایات کی تصریح اور اشارات کی توضیح کرناتھا۔آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی اس بنیادی دار ذمّ ی کو نبھاتے ہوئے ایسے انداز میں احکام الٰہی کی تعبیر و تشریح فرمائی کہ مسلمان احکام الٰہی پر ل پ را ا ہونے میں تنگی اور حرج میں مبتلا نہ بلکہ ہر جگہ ان کے لئے تیسیر ? ہوں، اسی لئے آپ صلى الله عليه وسلمنے مسلماویں کے لئے کسی بھی جگہ آسانی اور تیسیر کا دروازہ بند نہیں م میں تشدد،تعصب،قساوت قلبی،سختی اور حرج پیدا کرنے والے نظریات اور ? ، تاکہ دین ا ? اور آسانی کے پہلوں کواجادا رو یوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہ رہے۔ ( 1 ) ب الادب، باب قول النبی یسروا ولاتعسروا،رماحدییث: ? الجامع الصحیح، 6124 ( 2 ) ب الادب، باب قول النبی یسروا ولاتعسروا،رماحدییث: ? الجامع الصحیح، 6125 ( 3 ) ب الامارۃ،باب فضیلۃالامیر،رماحدییث: ? صحیح مسلم، 1828 5 موجودہ دور میں مسلماویں کے مزاج میں نفلی ا ت اور د ب ح ست م عبادات، ینی و دنیاوی فرائض کی ادائیگی میں بےجا سختی اور م کی آسانی اور تیسیر کے ? تعصب کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیشِ نظر، ضرورت اس امر کی تھی کہ ایسے حالات میں دین ا جائے جس کی روشنی میں تعصب،فرقہ واریت،تشدد،انتہا پسندی اور بے جاسختی پر مبنی رجحانات ،نظریات اور ? پہلوکو اجادا رو یوں کی صحیح سمت کی طرف راہنمائی کی جائے،اسی کے پیش نظر مقالہ نگار نے’’ احادیثِ نبویہ میں تیسیر۔ اسرار و حکم‘‘کے م کے تیسیر ? تاکہ ایسے افراد جو دین ا ? میہ کے دوسرے بڑے مآخذ حدیث رسول صلى الله عليه وسلم کا انتخاب ? عنوان سےشریعت ا اور آسانی کے پہلوں کو نظر انداز کرتے ہوئےویافل اورمستحبات میں اس قدر سختی سے کام لیتے ہیں کہ اپنے اور دیگرافرادکے لئے کئی ایک مشکلات اور پریشانیاں جنم دیتے ہیں وہ ان فرامین کی روشنی میں اپنے رو یوں ،رجحانات اور نظریات میں نرمی اور آسانی پیدا کرتے ہوئے راہ اعتدال کو اختیار کر سکیں۔ ? احادیث نبویہ میں تیسیر کے پہلوں کو روشن کرنے کے لیے حدیث کی بنیادی کتا سے آپ صلى الله عليه وسلم کے فرامین کا انتخاب گیاہے اور تیسیر پر مبنی احادیث کی تشریح و توضیح سلف صالحین کے نقطہ نظر کی روشنی میں بیان کرنے کے لئے شروحاتِ احادیث گیا ہے ۔ ? میں سے امہات الکتا کا سہارا مقالہ ذہ پانچ ابواب میں ٰ ٰ ہ منقسم ہے۔ گیا ہےاور تیسیر کی تائید میں قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ سے ? پہلے باب میں تیسیر اوراسرار و حکم کا معنی ومفہوم بیان دلائل بھی ذکر کئے گئے ہیں۔ دوسرے باب میں تیسیر نبویصلى الله عليه وسلمکی بنیادیں اور اسالیا کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم کی صفت تیسیر کو اجادا گیا ہے۔ ? کرنے کے لئے بائبل دس س سے بھی موازنہ پیش تیسرے باب میں طہارت کے ول ل،فرض اور نفل عبادات میں آپ صلى الله عليه وسلم کی اختیار کردہ نرمی،آسانی اور سہولت کی وضاحت کی گئی ہے۔ گیا ہے۔ ? چوتھے باب میں اصلاح معاشرہ اور دوات دین میں آپ صلى الله عليه وسلم کی آسانی اور تیسیر پر مبنی ہدایات کا جائزہ پانچویں باب میں امور جہاد اور حدود و تعریرات کے بارے میں فرامین نبوی صلى الله عليه وسلم کے اسرار و حکم کی وضاحت کی گئی ہے۔ مقالہ کے آخر میں خلاصہ بحث اور سفارشات پیش کی گئی ہیں اور مصادر ومراجع کی فہرست مرتب کر دی گئی ہے۔ م کی جو صحیح ترجمانی ہو اس کے لئے دلوں میں قبولیت کی صلاحیت عطا فرمائے ? رب کریم سے التجا ہے کہ اس مقالہ میں ا ادا اس میں کوئی کوتاہی ہو تو اس سے پہنچنے والے نقصان کو بے اثر کردے ۔آمين يارب العالمين۔" xml:lang="en_US
Loading...
Loading...

Similar Books

Loading...

Similar Chapters

Loading...

Similar News

Loading...

Similar Articles

Loading...

Similar Article Headings

Loading...

مولانا مفتی شوکت علی فہمی

مفتی شوکت علی فہمی
برہان کے لیے نظرات اورحضرت مولانا غلام محمد نورگت کی وفات پر تعزیتی نوٹ لکھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ ابھی ابھی ٹیلی فون پریہ منحوس اطلاع ملی کہ بعد نماز مغرب بروز جمعرات ۱۵؍اپریل ۹۳ء مفتی عتیق الرحمن عثمانی ؒ کے مدتوں کے ساتھی ورفیق، راقم کے چھوٹے بھائی نجیب الرحمن عثمانی کے خسرو عظیم ادیب و صحافی مغلیہ دورحکومت کے تاریخ داں اوردلّی کی تہذیب وشرافت، نیکی و انسانیت کے آئینہ ، وضعداری واخلاق کریمانہ کے پیکر مجسم، رسالہ’ دین ودنیا‘ کے بانی ومدیر حضرت مفتی شوکت علی فہمی اس دار فانی سے رحلت فرماگئے ہیں۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
یہ خبروفات ہم سب کے لیے زبردست دکھ وغم اورصدمہ کاباعث ہے کیونکہ قبلہ ابّاجان حضرت مفکرِ ملّت مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ سے انھیں قلبی تعلق تھا اور جب ادارہ ندوۃ المصنفین ۱۹۳۸ء میں قرول باغ میں قائم ہواتھا تواس وقت بھی مفتی شوکت علی فہمی سے ان کے روابط تھے جوآخروقت تک قائم رہے۔ حضرت ابّاجان مفتی صاحب کی وفات کے بعد وہ ہمارے خاندان کے قابلِ احترام بزرگ کی حیثیت سے ہم سب کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔حضرت ابّاجانؒجب ۱۹۴۷ء کے بعد علاقہ جامع مسجد دہلی میں آکر آباد ہوگئے تو تقریباً روزانہ ہی ملاقات فرماتے تھے۔دونوں بزرگ آپس میں ایک دوسرے کی رائے و مشورہ کانہ صرف ادب واحترام کرتے تھے بلکہ ان پر عمل پیرا بھی رہتے تھے۔
مفتی شوکت علی فہمی صاحب بلا کے ذہین تھے۔ ’دین ودنیا‘ میں ان کے حالات حاضرہ پرادا رئیے علمی حلقوں میں بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھے جاتے تھے۔ان کے قلم میں بڑی جان تھی۔کئی کتابیں انھوں نے رقم فرمائیں جوعلمی وادبی حلقوں میں مقبولیت کی سند حاصل کیے ہوئے ہیں۔بڑے ہی نستعلیق بزرگ تھے۔ نفاست پسند تھے ،لباس کے معاملے میں بھی بڑے نفیس تھے، گفتگو میں...

تطوّر العقيدة الإلحادية فى المجتمعات الإسلامية والغير الإسلامية وإنعكاساتها فى الجوانب المختلفة للحياة الإنسانية (دراسة تحليلية من المنظور الإسلامي)

The science of Islamic belief had been considered most valuable discipline among other disciplines of knowledge as it played an important, rather pivotal role in the practical life. Qualitative research technique was used for the collection, analysis, and demonstration of data. The research had addressed the four major dimensions of the topic which particularly include Meanings of Atheism and its essential elements, Development of Atheism in Islamic and Un-Islamic societies and response of Muslim scholars, Reflections of Atheism in various aspects of human life, and Analysis of Atheism in Islamic Perspective. The systematic review of literature disclosed that Atheism in Islamic perspective included the denial of God, Prophet Hood and hereafter or any of these elements. Atheism had equally affected the Muslim and Non-Muslim societies by blowing the materialism into social, economic and political system. In this connection, Muslim scholars were divided into four types in terms of their response to Atheism which was discussed in detail in paper. Moreover, Atheism had also affected the individual as well as collective life. The author had critically analyzed the Atheism in Islamic perspective and presented the conclusion and recommendations at the end.

Bilateral Effect of Foreign Direct Investment and Human Resource on Socio-Economic Development of Pakistan

The Foreign Direct Investment (FDI) as a package of capital, knowledge and skills has been getting popular for the last three decades among the developed as well as the developing countries. As regards its impact on the socioeconomic development of the host country, many developed and developing countries liberalized their economies and adopted radical policies to attract the FDI. Pakistan is one of such countries that took the FDI oriented stance in late 1980s. Among the multiple determinants of the FDI, the human capital got much importance in the literature with the passage of time. From the other side, the impact of the FDI on the human capital of the host country is also evident in the literature. This bilateral relationship between the human capital and the FDI may result in the socioeconomic development of the host country. The human capital is one of the social indicators and its formation owing to the FDI inflow is the very social development. The FDI may influence the economic development of the host country with the help of capital, payment of taxes, provision of jobs, and improvement in balance of payments. This social and economic development due to the bilateral relationship between the human capital and the FDI is the context dependant one. In the Pakistani context such nexus has not been studied fully. The studies that touched upon it partially are a few also with the conflicting results. This dissertation analyzes this very nexus empirically for Pakistan with the help of using the country level time series data during the period from 1971 to 2005 through four models. First of all it examines the human capital as determinant of the FDI. Then it investigates the impact of the FDI on the human capital. At the third stage it explores as to how FDI inflow influences the economic development in Pakistan. Finally, it studies the impact of the human capital on the economic development of Pakistan. This study also analyzes the trend and the pattern of the FDI flow in Pakistan and theoretically it identified the factors impeding the FDI xinflow. As for the data analysis, the bound testing approach to the cointegration within the framework of the Autoregressive Distributed Lag (ARDL) was used. The study concludes that: The human capital has a significantly positive impact on the FDI flow in Pakistan; The FDI does not influence the human capital formation at the macro level; The FDI is strongly instrumental in the economic development; and also the human capital leads to economic development of Pakistan. The factors impeding the FDI flow in Pakistan are: the perception among the foreign investors regarding the poor implementation of the policies in Pakistan; the poor law and order situation; the ongoing terrorism; weak economic conditions; the nuclear test of May 1998; inconsistent and short-term policies about investment and industrialization; various types of obstacles for investors regarding approval; comparatively insufficient infrastructure; poor condition of the human capital; and tangled labor laws and the pro-labor policies. On the bases of conclusion, policy implications have been touched upon the attraction of FDI and the formation of the human capital in such a way as may result in the socioeconomic development of Pakistan. Key Words: Foreign Direct Investment Inflow, Human Capital, Socioeconomic Development, Social Development, Economic Development, Domestic Capital, Openness, Labor Growth Rate, Pakistan.