Fozia Anjum
PhD
University of Agriculture
Faisalabad
Punjab
Pakistan
2010
Completed
Chemistry
English
http://prr.hec.gov.pk/jspui/handle/123456789/1610
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676725635385
حقیقت کا اقرار
استفہام کا ایک بلیغ موقع استعمال وہ بھی ہے جب مخاطب سے کسی ایسی بات کا اقرار کرانا ہو جس کی نوعیت ہو تو ایک بدیہی حقیقت کی لیکن مخاطب اس کو تسلیم کرنے کے باوجود عملاً اس سے منحرف ہو۔ جیسے آیت ذیل :
" هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا" “[ ]
"انسان پر کبھی ایسا وقت آیاہے کہ نہیں جب وہ کوئی قابل چیز نہیں تھا" کی تفسیر میں مولانا امین اصلاحی کانقطہ نظر ہے یہ محض ایک سادہ خبریہ جملہ نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بہت سے معانی مضمر ہیں۔ مثلاً:
۱۔ ایک عظیم حق کی یاددہانی ہے جو اس پر عائد ہوتا ہے اور جس سے اس کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کا رویہ اس کے منافی ہے۔
۲۔اس میں ملامت ‘ غصہ ‘ رنج اور اظہار حسرت کے بھی گوناگوں پہلو ہیں۔
۳۔اس میں نہایت مبنی برحقیقت گلہ و شکوہ بھی ہے اور نہایت موثر اپیل بھی۔
۴۔ استفہامیہ اسلوب نے اس حسن فکر کو بیدار کرنا چاہا ہے کہ انسان کی نظروں سے خدا اوجھل ہے تو اس کا اپنا وجود تو اوجھل نہیں ہے ‘ وہ خود اپنے اندر خدا کی قدرت و حکمت اور اس کے عدل و رحمت کی نشانیاں دیکھ سکتا ہے۔[ ]
" قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِلَّهِ" “[ ]
"ان سے پوچھوکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کی ملکیت ہے(پھر اگر وہ جواب نہ دیں توخود ہی )کہہ دو کہ اللہ ہی کی ملکیت ہے"۔
مولانا امین احسن اصلاحی کی تحقیق کےمطابق قرآن مجید میں جہاں جہاں سوال کر کے مخاطب کے جواب کا انتظار کیے بغیر خود اس کا جواب دیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ...