Muhammad Akram
PhD
The Islamia University of Bahawalpur
Bahawalpur
Punjab
Pakistan
2002
Completed
Mathemaics
English
http://prr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/2989/1/214.pdf
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676725668626
خس وخشاک زمانے
پاکستان میں 2010ء میں منظر عام پر آنے والا ناول خس وخاشاک زمانے مستنصر حسین تارڑ نے تحریر کیا۔ایک ایسا ناول جس میں لاہور کی منظر نگاری کی گئی ہے لاہور میں رہنے والوں کا ماحول ،رہن سہن اور گاؤں سے آنے والے وہ افراد جو روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کی طرف اپنا رخ کرتے ہیں اور پھر کس طرح ان کی زندگی گزرتی ہے، ان کوکن مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ان تمام باتوں کو بہت خوبصورتی سے خس وخاشاک زمانے میں مصنف نے اپنا موضوع بنایا ہے۔ناول میں مصنف نے دنیا پور سے آئے ہوئے لوگوں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ سبزی منڈی آتے ہیں اور لاہور سبزی منڈی میں اپنا سارا مال بیچ کر شام کی ٹرین سے واپس اپنے گاؤں کی طرف چلے جاتے ہیں۔مصنف ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو اپنے آپ کو بلند سمجھتے ہیں یعنی جاٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔خود کو تمام ذاتوں سے اعلیٰ اور باقی تمام ذاتوں کو خود سے کمتر اور اپنا خادم تصور کرتے ہیں۔مصنف نے بتایا ہے کہ جب یہی لوگ اپنے گاؤں سے شہر میں آکر آباد ہو جاتے ہیں تو انھیں شہر کی تنگ گلیوں اور چھوٹے مکانوں کو دیکھتے ہوئے اپنے گاؤں کے کھلے گھر اور گوبر کی بدبوئیں یاد آتی ہیں۔
’’خس وخاشاک زمانے ‘‘کو پاکستان کی ایک ایسی کہانی کہا جاسکتا ہے کہ جو معاشرے کی تہذیبی واخلاقی اقدار اور پھر معاشرے میں بدلتے ہوئے اخلاقی رویوں کو بیان کرتی ہے۔ ناول میں دو خاندانوں کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے جس کو موضوع بناتے ہوئے اس نے ان حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جن پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔کہانی نسلوں پر پھیلی ہوئی ایک داستان کی...