س طرح دین کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو ہمارے ہاں عالم دین سمجھ لیا جاتا ہے اسی طرح علامہ اقبال کے چند اشعار یاد کر لینے والے یا اقبال کی شخصیت پر تحقیقی مضمون یا مقالہ لکھنے والے بعض احباب اپنے آپ کو بطور اقبال شناس کہلانے میں دیر نہیں کرتے ۔ ایسے حالات میں کچھ ایسے اسکالرز بھی موجود ہیں جنہوں نے حقیقت میں فکر اقبال کو سمجھا اور دوسروں کو سمجھایا۔ اقبال فہم ہستیوں میں بلا شبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر حسین فراقی ، ڈاکٹر شاہد اقبال کامران اور ڈاکٹر قمر اقبال بہت بڑے نام ہیں۔ اس فہرست میں ایک نام پروفیسر ڈاکٹر عبدالحق کا بھی ہے جنہوں نے ہندوستان میں رہ کر اقبال فہمی کا علم اٹھا رکھا ہے۔ ہندوستان میں فکر اقبال کی شمع روشن کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ڈاکٹر محمد عامر اقبال اس لحاظ سے ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر عبدالحق جیسے اقبال شناس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے در وا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی زیر نظر کتاب پروفیسر عبد الحق: احوال و افکار جہاں پروفیسر عبد الحق کی زندگی پر روشنی ڈالتی ہے وہاں فکر اقبال کی توسیع و تفسیر کے لیے بھی کار آمد ہے۔ کتاب کی شاندار اشاعت پر میں ڈاکٹر عامر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔ مجھے یقین کامل ہے کہ ان کی یہ کاوش اقبال شناسی کے میدان میں نو آوردگان کے لیے اہم دستاویز ثابت ہوگی۔
پروفیسر ڈاکٹر مشتاق عادل
صدر شعبہ اردو، یونیورسٹی آف سیالکوٹ
الملخص: ظهرت بوادر الضعف في سياسة الحكومة الفرنسية تجاه لبنان بعد انتهاء أزمة تشرين الثاني عام 1943، اذ وجدت اللجنة الوطنية الفرنسية نفسها أمام صمود الحكومة اللبنانية والضغط البريطاني، لذلك عمدت الحكومة الفرنسية إلى اتخاذ قرارها بالإفراج عن رئيس واعضاء الحكومة اللبنانية وإعادة الحياة الدستورية إلى البلاد، قُسمت الدراسة الى مبحثين مع مقدمة وخاتمة تضمنت ابرز النتائج التي توصلت اليها الدراسة، تطرق المبحث الاول الى نقل المصالح المشتركة والدور بريطانيا في حلها، في حين ابرز المبحث الثاني الدور البريطاني في مفاوضات الجلاء الفرنسية اللبنانية 1945-1946، توصلت الدراسة الى عدة نتائج كان من اهمها تضمن الموقف الدولي بشكل عام وبريطانيا خصوصا قضية استقلال لبنان وجلاء القوات الاجنبية بشكل نهائي سببا في انهيار سياسة الحكومة الفرنسية في لبنان. الكلمات المفتاحية: الحكومة الفرنسية، الحكومة اللبنانية، الاعتراف الدولي، الاستقلال التام، جلاء الجيوش الأجنبية
Teacher performance appraisal has not had a smooth passage since it was first mooted by the central office of AKES, P. It was sometimes referred to as a confidential report and was mostly associated with the purpose of weeding out' those teachers whose performance was not satisfactory. It was assumed a sort of anxiety and had been regularly criticised as being improperly conducted and ineffective in promoting teacher development. Once misunderstood and often feared, teacher appraisal is now seen not only as necessary but as an issue of central importance to the future progress of the education service. Appraisal of teaching is an essential requirement in virtually all AKES, P schools as a means of ensuring teacher accountability, improving teaching and linking it to the professional development of teachers. The central focus of this study was to find out and illustrate the main components of the appraisal process with special reference to its effects on teachers' beliefs, attitudes and practices. This study elaborates on the conduct of appraisal, the arrangements for handling data collection and disagreements, and how the results of appraisal could be documented i.e. rating and grading of teachers. It comments on follow up procedure training and implementation, and how the appraisal should affect the development of teachers and schools. Yet, there should be one central purpose of the appraisal and that is to improve teaching and learning. This study should provide teachers, head teachers, and other stakeholders with substantial insight into the conception of teacher appraisal.