Faisal Akram
PhD
University of the Punjab
Lahore
Punjab
Pakistan
2013
Completed
Physics
English
http://prr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/2376/1/3004S.pdf
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676726355842
غزل ---فرحت شکور(پاکپتن)
مت پوچھ کہ ہم کیسی بلاؤں میں گھرے ہیں
بے یارو مدد گار تیرے چاہنے والے
جینے کا ہمیں حق ہے نہ مرنے کی اجازت
آنکھوں میں کوئی خواب نہ دل میں کوئی خواہش
سینچا ہے لہو دے کے سدا لالہ و گل کو
حسرت ، کبھی نفرت ، کبھی غربت ہمیں بخشی
افلاس و فلاکت کی چلی آندھیاں ہر سو
اے میرے خدا کیوں یہ میرے دیس کے باسی
سچ ، سوچ ، قدم اور قلم محدود ہیں اپنے
ہوتے ہی نہیں پست کبھی حوصلے میرے
لوٹے نہ میرے صاحب اس شہرِ فسوں جا کر
آیا نہ خیال ان کو میری صحرا گری کا
یکسر نہیں میرا ، تو رقیبوں کو مبارک
کیا پوچھتے ہو حالِ دلِ زار ہمارا
کس موڑ پہ لے آیا یہ عشق ہمیں فرحتؔ
خوابوں سے جو نکلے تو صداؤں میں گھرے ہیں
صحراؤں کی جاں سوز ہواؤں میں گھرے ہیں
ہم اہلِ وفا کیسی سزاؤں میں گھرے ہیں
ہم زیست کی بے رنگ خلاؤں میں گھرے ہیں
کیوں اہلِ چمن پھر بھی خزاؤں میں گھرے ہیں
ہم لوگ مقدر کی عطاؤں میں گھرے ہیں
کیوں اہلِ وطن اتنی وباؤں میں گھرے ہیں
ڈر خوف کی محبوس فضاؤں میں گھرے ہیں
ہم اہلِ سخن ایسے خداؤں میں گھرے ہیں
شاید کسی اپنے کی دُعاؤں میں گھرے ہیں
کسی دلرُبا کی دلکش اداؤں میں گھرے ہیں
کس زُلفِ گرہ گیر کی چھاؤں میں گھرے ہیں
ہم اہلِ طلب اب کہ اناؤں میں گھرے ہیں
اک یار بے وفا کی جفاؤں میں گھرے ہیں
دُکھ درد کی گھنگھور گھٹاؤں میں گھرے ہیں