Tehseen Gul, Al-Hafizah Shafia
PhD
University of Agriculture
Faisalabad
Punjab
Pakistan
2014
Completed
Botany
English
http://prr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/2311/1/2804S.pdf
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676727166358
منزلِ شوق کے رنگ
ڈاکٹر نوید عاجزؔ
ڈاکٹر فہد ملک کا پہلا تعارف انسانیت کے مسیحا کا ہے۔ لیکن وہ روح کی مسیحائی پر یقین رکھتے ہوئے شاعری کو مقدم گردانتے ہیں۔ سچائی، خلوص اور انسان دوستی کی صفات اُن کی شخصیت کی تعمیر میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ چونکہ وہ شاعری کو شخصیت کے اظہار کا وسیلہ تصور کرتے ہیں، اس لیے ان کے کلام میں بھی مذکورہ صفات پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
عداوتوں کو تیرگی، وفا کو روشنی کہا
تمام عمر ہم نے تو جو سچ تھا بس وہی کہا
غزل کی روایت کا ایک موضوع احباب کی بے وفائی کا ہے۔ یہ موضوع اس قدر آفاقیت کا حامل ہے کہ ہر دور و ہر دیار میں پنپتا ہوا مل جائے گا۔ہمارے معاشرتی نظام میں دولت کی چمک دمک انسان کے ضمیر کو سلا کر وقتی مفادات پر مبنی فیصلے لینے پر مجبور کر دیتی ہے لیکن بے وفائی کی کوئی توجیہہ قابلِ قبول نہیں۔ یہ موضوع شاعری کا سدا بہار حصہ ہے۔ بقول فہد ملک:
ہم راہ دیکھتے رہے تھے جس کی عمر بھر
وہ شہر میں جو آیا تو ہم سے نہیں ملا
فہد کے اندر حساس انسان اُسے غور و فکر پر اکسائے رکھتا ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے ہاں فلسفیانہ مزاج کے اشعار ملتے ہیں۔ وجودی کرب انسان کا مقدر ہے۔ جو شخص دنیا میں آ گیا ہے وہ غم ہائے روزگار سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ میرؔ و غالبؔ سے قاسمیؔ اور فرازؔ تک سبھی اس کرب کو محسوس کرتے اور پھر بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ انسانی تخلیق کے حوالے سے فہد بھی اسی کرب سے گزرتے ہوئے لکھتا ہے:
اس گردشِ جہان کا مارا ہوا وجود
لے جائیں ہم کہاں بھلا ہارا ہوا وجود