Search or add a thesis

Advanced Search (Beta)
Home > Solutions of Some Unsteady Flows over a Stretching Sheet Using Homotopy Analysis Method

Solutions of Some Unsteady Flows over a Stretching Sheet Using Homotopy Analysis Method

Thesis Info

Access Option

External Link

Author

Iftikhar Ahmad

Program

PhD

Institute

Quaid-I-Azam University

City

Islamabad

Province

Islamabad.

Country

Pakistan

Thesis Completing Year

2008

Thesis Completion Status

Completed

Subject

Mathemaics

Language

English

Link

http://prr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/3235/1/2477.pdf

Added

2021-02-17 19:49:13

Modified

2023-01-07 09:37:27

ARI ID

1676727189536

Similar


Loading...
Loading...

Similar Books

Loading...

Similar Chapters

Loading...

Similar News

Loading...

Similar Articles

Loading...

Similar Article Headings

Loading...

میر مرتضیٰ بھٹو

میر مرتضی بھٹو

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹا 18ستمبر1954کو کراچی میں پیدا ہو ا۔ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی ۔بیچلر ڈگر ی ہارورڈ یونیورسٹی سے اور ماسٹر ڈگری آکسفورڈ سے حاصل کی ۔1977ء میں اپنے والد کی رہائی کے لیے تاریخی مہم چلائی اور دنیا کے اہم ترین رہنمائوں سے ملاقات کی ۔

1993میں پاکستان واپس آتے ہی گرفتار ہو گئے ۔بعد میں ضمانت پررہا ہو گئے ۔ 1993میں لاڑکانہ سے سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کی بنیاد رکھی۔20ستمبر 1996ء کو کراچی پولیس فائرنگ سے اپنے ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گئے ۔

 

The Reluctant Fundamentalist Exploring the Ideological Basis and Bicultural Consciousness in Pakistani Diasporic Anglophone Fiction

This paper explores the religious ideological basis, cultural ambivalence and a bicultural identity issues in Mohsin Hamid’s The Reluctant Fundamentalist. This Pakistani Anglophone novel carries different diasporic sensibilities. Issues related to culture, religion and its association with ideological grounds are very prominent. Elements of immigrant feelings and loss of identity are very vibrant. The writer shares migrant experience and the influence of a new culture of the host country, United States. While migrants from some of the Asian states, mainly those characterized by most recent immigrant waves, have really worse socio-economic situation than average immigrants; Pakistani people are among minorities. This research is qualitative in nature. Theories presented by Arjun Appadurai, Homi K Bhabha, and James Clifford about culture and diaspora support this research. This research is helpful to know about the concerns associated with the liminal space and issues related to identity loss, strong affiliation and recognition on the basis of religion and living with a bicultural identity.

اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات

اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات مقالے کو چھے ابواب میں تقسیم کیا ہے جن کی تفصیل یہ ہے : پہلا باب افسانے میں اسلوب اور تکنیک کی اہمیت کے بارے میں ہے۔ اس باب کے آغاز میں افسانے کی فنی مبادیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس صنف نے مغرب میں جنم لیا۔ اس لیے اس کے اصول بھی وہیں مرتب کیے گئے۔ لیکن اس صنف کی اردو میں آمد تک ہیئت کے اعتبار سے کئی تبدیلیاں آئیں۔ اسلوب اور تکنیک کے کئی تجربات ہوئے۔ اس باب میں ان باتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں تکنیک اور اسلوب کے فنی مسائل پر بحث کی گئی ہے اور مغرب میں افسانہ نگاری کی روایت اور اس روایت کی بدلتی ہوئی صورتوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ دوسرے باب کا تعلق اردو افسانے کے دورِ اولین سے ہے۔ پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم ہمارے دو ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنی حیات ہی میں دبستان کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس طرح افسانوی نثر میں حقیقت نگاری اور رومانویت کو ارتقا کرنے کا موقع ملا۔ اسی باب میں سجاد ظہیر اور ڈاکٹر رشید جہاں کے مجموعے "انگارے" کا بھی تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس مجموعے پر مغرب کی جدید تحریکوں کے اثرات ہیں۔ اس طرح رومانیت اور حقیقت نگاری کے علاوہ جدیدیت کی مغربی روایت کا جائزہ لیا ہے۔ تیسرے باب میں اردو افسانے کو ترقی پسند تحریک کے ساتھ اور حقیقت نگاری کی مقبولیت کے محرکات کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اردو افسانے کا زریں دور ہے۔ جب سعادت حسن منٹو ، کرشن چندر، غلام عباس، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی ، راجندر سنگھ بیدی جیسے اہم افسانہ نگار سامنے آئے جن کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ترقی پسند تحریک ایک واضع منشور کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ اس منشور کا تقاضا تھا کہ جو کچھ لکھا جائے وہ حقیقت نگاری کے پیرائے میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد میں حقیقت نگاری کو خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔ لیکن حقیقت نگاری میں بھی ہر بڑے افسانہ نگار نے اپنا انفرادی رنگ پیدا کیا ۔ اس باب میں جہاں ایک طرف حقیقت نگاری کی مقبولیت کے اسباب کا جائزہ لیا ہے وہاں پر اہم افسانہ نگار کی انفرادی خصوصیات کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔ چوتھا باب ترقی پسند عہد- اردو افسانے پر مغرب کے نفسیاتی و تکنیکی اثرات کے موضوع پر ہے۔ ترقی پسند عہد میں اگرچہ حقیقت نگاری کو مقبولیت حاصل ہوئی مگر سماجی شعور کے ساتھ ساتھ ایک حلقہ ایسا بھی تھا جس نے مغربی تحریکوں اور نظریات سے کسبِ فیض کا سلسلہ جاری رکھا۔ خاص طور پر علمِ نفسیات کے اثرات بعض افسانہ نگاروں پر بہت نمایاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس باب میں مغرب کے نفسیاتی و تکنیکی اثرات کا مجموعی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاروں کے انفرادی مطالعے بھی شامل ہیں۔ پانچواں باب "آزادی کے بعد اردو افسانہ" کے موضوع پر ہے۔ تقسیم ہند کے بعد فسادات کے موضوع پر بہت لکھا گیا۔ یہ المیہ جس نے انسانیت کے اخلاقی رویوں کی دھجیاں اڑا دی تھیں اپنے ساتھ کئی کہانیاں لے کر آیا۔ اس عہد میں افسانہ نگار کے رویے اور طریقہ اظہار کی جو صورتیں سامنے آئیں۔ ان کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فسادات کے زمانے میں معیاری افسانہ تعداد میں کیوں کم ہے۔ علاوہ ازیں فسادات کے بعد ہجرت کے کرب اور رومانویت کابھی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ساٹھ کی دہائی میں جدید افسانے کا آغاز ہوا اسی باب میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جدید افسانے کے محرکا ت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ چھٹا باب جدید افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے نئے تجزیات کے مجموعی جائزے اور انفرادی مطالعوں پر مشتمل ہے۔ اس باب میں نئے افسانے کے فکری پس منظر، علامتی نظام اور اس کے فنی لوازم، اسلوب اور تکنیک کی سطح پر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں ، ابلاغ کے مسائل ، نئے زاویہ نظر کی آمد اور علامتی افسانے کی مقبولیت کے محرکات کو تفصیل سے جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساٹھ کے بعد ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں بے شمار نام ایسے ہیں جو اپنا انفرادی رنگ رکھتے ہیں اس باب میں منتخب جدید افسانہ نگاروں کی تکنیک اور اسلوب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی انفرادیت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔