Sattar, Samina Abdul
PhD
University of Karachi
Karachi
Sindh
Pakistan
2012
Completed
Chemistry
English
http://prr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/11035/1/Samina_Abdul_Sattar_Chemistry_2012_UoK_Karachi_18.09.2019.pdf
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676727273549
ڈاکٹر شہزاد احمد بطور تذکرہ نگار
تذکرہ نگاری کا مفہوم
تذکرہ نگاری اُردو شاعری کی روایت کے فروغ کا ایک اہم سنگِ میل رہی ہے۔ اس صنف نے اُردو شاعری کے ساتھ نعتیہ ادب کو بھی احسن طریقے سے محفوظ کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ نعتیہ تذکرہ نگاری میں ڈاکٹر شہزاد احمد کا نام درجۂ استناد رکھتا ہے۔ اس سے قبل ضروری ہے کہ تذکرہ نگاری کے لغوی واصطلاحی معانی مرتب کرلیے جائیں۔وارث سرہندی کے مطابق تذکرہ کے معنی ہیں:’’یاد کرنا ، ذکرکر نا، یادگار‘‘( ۱)
سید احمد دہلوی نے فرہنگِ آصفیہ میں تذکرے کے جو معنی بیان کیے ہیں ، وہ بھی ملاحظہ ہوں:
’’یاد داشت ،بیان، یادگار اور سرگزشت‘‘۔( ۲)
پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’’تذکرے کو بیاض کی ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہیں۔انھوں نے اپنے مقالے ’’ اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ میں تذکرہ نگاری کے مفہوم کو واضح انداز میں پیش کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تذکرہ بیاض سے آگے بڑھ کر نیم تاریخی، نیم تنقیدی اور نیم سوانحی فضا میں داخل ہو گیا۔ وقت اور ماحول کے تقاضوں کے تحت تذکرہ پر ادبی تاریخ ، تنقید اور سوانح نگاری کا رنگ گہرا ہوتاگیا اور رفتہ رفتہ تینوں رنگوں کا یہی آمیزہ جسے حقیقی معنوں میں نہ ادبی تاریخ کا نام دے سکتے ہیں، نہ تنقید کہہ سکتے ہیں اور نہ سوانح نگاری سے تعبیر کر سکتے ہیں، فن قرار پایا اور شعرا کے مختصر حالات ، کلام پر سرسری تبصرہ اور انتخاب اشعار کو اس فن کے عناصر ترکیبی میں شمار کیا گیا۔‘‘(۳)
مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تذکرہ ایک شاعر کے مختصر حالات و واقعات اُس کی زندگی کے نمایاں خدوخال اور نمائندہ کلام سے ترتیب پاتا ہے۔ چوں کہ اُردو کے ابتدائی دور میں تنقید نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی اس...