Zafar, Muhammad
PhD
University of Agriculture
Faisalabad
Punjab
Pakistan
2009
Completed
Applied Sciences
English
http://prr.hec.gov.pk/jspui/handle/123456789/848
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676727671318
آہ! مولانا ابوسلمہؒ
(پروفیسر مسعود حسن)
۲۲؍ دسمبر کی دوپہر کو کلکتہ کے مسلمان ایک بڑے المناک سانحہ سے دوچار ہوئے، یہ سانحہ حضرت مولانا ابوسلمہ شفیع احمد صاحبؒ کی رحلت ہے، جو ۵-۴ ماہ کی طویل اور صبر آزما علالت کے بعد ۷۳ سال کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون، دوسرے دن صبح ۳۰:۱۲ بجے ان کے ہزاروں عقیدت مندوں اور جان نثاروں نے ان کے جسدخاکی کو پارک سرکس سے متصل ایک قبرستان میں جس کا نام ہم ’گورغریباں‘ ہے، یہ کہہ کر سپردخاک کیا کہ:
اے تیرہ خاک خاطرِ مہماں نگاہ دار
کیں نورچشم ماست کہ دربر گرفتہ ای
نور اﷲ مرقدہٗ و برد اﷲ مضجعہ
مولانا مرحوم کے نام اور مقام سے مجھے بہت پہلے سے واقفیت تھی، البتہ باقاعدہ نیاز اور تقریب ۱۹۵۹ء میں حاصل ہوا، جب مجھے مدرسۂ عالیہ کلکتہ کی پرنسپلی تفویض ہوئی اور میں مدرسہ پہنچا، مولانا مدرسہ کے ممتاز ترین اساتذہ میں تھے، تفسیر اور حدیث ان کے خاص موضوع تھے اور ان دونوں فنون کی بیشتر متداول کتابوں پر ان کی گہری نظر تھی، وہ مدرسہ کی اونچی جماعتوں میں درس دیتے تھے اور بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ میں مدرسہ میں کم و بیش ۵ سال رہا۔ اس پوری مدت میں میرے ان کے تعلقات مخلصانہ رہے اور جب میں وہاں سے رخصت ہوا تو اس کے بعد بھی ان کا اخلاص برابر جاری رہا۔ وہ اکثر میرے غریب خانہ پر تشریف لاتے، گھنٹوں بیٹھتے تھے۔ راقم الحروف بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، ان ملاقاتوں میں اکثر علمی گفتگو ہوا کرتی تھی، کبھی کبھی حالات حاضرہ پر بھی تبصرہ ہوا کرتے تھے، مولانا ان مجلسوں میں علم و حکمت کے موتی بکھیر دیتے تھے۔
مولانا کو لکھنے پڑھنے اور تصنیف کا شوق...