Tahir Alyas
PhD
National College of Business Administration and Economics
Lahore
Punjab
Pakistan
2018
Completed
Computer Science
English
http://prr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12748/1/Tahir%20Alyas_CS_2018_NCBAE_PRR.pdf
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676727714949
ناول"دھنی بخش کے بیٹے " میں خیر وشر کا تصور
کومل شہزادی
اس کائنات میں ازل سے “خیر” اور” شر” کی کشمکش ہے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہی کشمکش آپ کو ایسے تصورات کے اطلاق کی راہ میں بھی حائل نظرآتی ہے ۔ اس کائنات میں “خیر” اور” شر” ما بعد طبعیاتی اور ماورائی تصورات ہیں۔اگر ہم غور کریں تو انسان دو طرح کے عوامل کے زیر اثر ہوتا ہے ایک خیر اور دوسرا شر-کچھ چیزیں خیر کا اظہار ہوتی ہیں اور کچھ شر سے جنم لیتی ہیں۔
اس پر ایک طویل بحث کی جاسکتی ہے مگر میں ناول "دھنی بخش کے بیٹے " کی بات کروں تو ناول نگار نے دو الگ کرداروں کے ذریعے اس موضوع کا احاطہ کیا ہے۔حسن منظر ایک منفرد ناول نگار ہیں اور ان کا یہ ناول اکیسویں صدی کا عمدہ ناول کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ناول میں دو کردار علی بخش اور احمد بخش سے خیر و شر کی کشمکش کا پہلو ہے اس کو دونوں کرداروں سے عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔علی بخش کے کردار میں شر جیسے عناصر پائے جاتے ہیں جبکہ احمد بخش کے کردار میں ہمیں خیر کے پہلو ملتے ہیں۔ناول نگار نے دونوں کی عادات و اطوار سے اس تصور کو ناول میں جگہ جگہ تذکرہ کیا ہے۔خیر و شر پہلوؤں کا بھی بہت خوب انداز میں نقشہ کھینچا گیا ہے ۔جس سے ناول کے دو کردار علی بخش اور احمد بخش سے عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔دھنی بخش کے گاؤں اور اس کے اردگرد دیہاتوں میں یہ خبر گردش ہونا شروع ہوجاتی ہے کہ احمد بخش امریکہ جارہا ہے ۔احمد بخش کو ایسی برائیوں سے بڑھے ہوئے ماحول سے کراہٹ محسوس ہوتی تھی ۔وہ کلچرل سسٹم میں خود...