Mangi, Asadullah
Institute for Educational Development, Karachi
MEd
Aga Khan University
Private
Karachi
Sindh
Pakistan
2011
Completed
Education
English
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676727984630
امجدؔ حیدرآبادی
افسوس ہے کہ پچھلے دنوں حضرت امجد حیدرآبادی کا۸۳ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔مرحوم بڑے قادر الکلام اورنغز گوشاعر تھے۔نثراورنظم دونوں میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔لیکن رباعی گوئی اُن کا خاص فن تھا۔اس میدان میں وہ اپنا کوئی حریف نہیں رکھتے تھے،اس اعتبار سے و ہ درحقیقت اردو زبان کے سرمد تھے۔ چنانچہ مولانا گرامی نے بجاطورپر کہاتھا:
امجد بہ رباعی ست فردا مجد
کلکِ امجد کلیدِ گنجِ سَرمد
گفتم کہ بودجوابِ سرمدؔ امروز
روحِ سَرمد بگفت امجد امجد
بلند پایہ شاعرادیب اورمصنف ہونے کے علاوہ بڑے صاحب ِدل،صاحبِ معرفت،خوددار،غیور اورپابندِ وضع بزرگ تھے۔زندگی بالکل درویشانہ ا ورقلندانہ تھی۔عسرت وافلاس سے ہمیشہ سابقہ رہا مگراربابِ ثروت ووجاہت کے ساتھ نیازمندی کاتعلق رکھ کراپنے فن اورکمال کی توہین کبھی گوارا نہیں کی۔سیلاب رودِموسی کے واقعہ کے بعد جس میں اُن کے دیکھتے ہی دیکھتے بوڑھی ماں اورجوان بیوی بہہ گئیں اورغرق ہوگئیں تھیں وہ سوزوگداز مجسم اورپیکر عبرت ہوکررہ گئے تھے لیکن کیا مجال کہ تسلیم و رضا کی پیشانی پرکوئی بل بھی پڑا۔مولانا سید مناظر احسن گیلانی اورمرحوم میں بڑے مخلصانہ تعلقات تھے اوردونوں ایک دوسرے کی دل سے قدرومنزلت کرتے تھے۔مرحوم سے راقم الحروف کی پہلی ملاقات ۱۹۴۴ء میں حیدرآباد میں مولانا کے مکان پرہی ہوئی تھی۔یہ ملاقات اگرچہ سرسری تھی، لیکن مرحوم کے حافظہ کاکمال یہ تھا کہ ۱۹۵۸ء میں جب سفرحیدرآباد کے سلسلہ میں موصوف کے مکان پرحاضر ہوا تو اگرچہ ضعیفی اورحافظہ اورمسلسل علالت کی وجہ سے بہت کمزور ہورہے تھے اوربینائی بھی بہت کمزور ہوچکی تھی، مگر باایں ہمہ میری آواز سنتے ہی فوراً زنانخانہ سے مردانہ میں آگئے۔ بڑی شفقت ومحبت سے خاطر تواضع کی، دیر تک باتیں کرتے اوربرہان و ندوۃ المصنفین کی خدمات کاتذکرہ کرتے رہے۔چلنے لگا تواپنی تمام کتابوں کاسیٹ عطافرمایا،میں نے اُن کاہدیہ پیش کیا تومیرے سخت اصرار کے بعد بادل نخواستہ قبول فرمایا۔...