Abduljon Azizulloev
Institute for Educational Development, Karachi
MEd
Aga Khan University
Private
Karachi
Sindh
Pakistan
2000
Completed
Education
English
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676727987989
آہ! مولانا ابومحفوظ الکریم معصومی مرحوم
علامہ ابومحفوظ الکریم معصومی نے ۱۷؍ جون ۲۰۰۹ء کو اس عالم فانی کو الوداع کہا اور کلکتہ کی زمین نے علم و تحقیق کے آسمان کو اپنی آغوش میں لے لیا، یقینا ان کی وفات سے مطالعہ و تحقیق کی دنیا میں عرصے تک خلا محسوس کیاجائے گا، فنانی العلم ہستیاں اب نایاب ہیں اور ان کے اٹھ جانے سے واقعی علم کے اٹھ جانے کا احساس ہوتا ہے۔
دارالمصنفین سے ان کا تعلق نصف صدی سے زیادہ کی مدت پر محیط ہے، وہ جب ڈھاکہ یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر تھے تو اس وقت یعنی ۱۹۴۸ء میں ان کا مضمون ’’تفسیر طبری کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا، یہ تعلق اس طرح قوی سے قوی تر ہوتا گیا کہ وہ آخری وقت تک رسالہ ’’معارف‘‘ کی مجلس ادارت اور دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے رکن رہے، اس لیے دارالمصنفین میں ان کے رحلت کی خبر اور بھی زیادہ غم واندوہ کے ساتھ سنی گئی۔
مولانا کی زندگی کا بیشتر حصہ بنگال میں گزرا لیکن اصلاً مولدووطن صوبہ بہار کا نہایت مردم خیز قصبہ بہار شریف ہے، ان کے والد مولانا محمد امیر حسن نے کلکتہ اور ڈھاکہ میں مدۃالعمر تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیئے لیکن وطن کی خاک ان کو بہار شریف کھینچ لائی، مولانا محمد امیر حسن کے دو صاحب زادے ہوئے اور دونوں علم و تحقیق کے آفتاب و ماہتاب نکلے، ایک تو ڈاکٹر محمد صغیر حسن معصومی، جنہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ابن باجہ اندلسی کی کتاب النفس کو مرتب کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، ان کے بعض مقالے معارف میں شائع ہوئے، پاکستان بننے کے بعد وہ وہاں کے تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوئے اور اسلام آباد میں ۱۹۹۶ء میں وفات پائی، ہمارے مولانا ابومحفوظ الکریم معصومی ان سے چھوٹے تھے، ان...