سید محمد انور
جمیلہ شوکت
PhD
University of the Punjab
Public
Lahore
Punjab
Pakistan
2008
Completed
English
2021-02-17 19:49:13
2023-01-06 19:20:37
1676728088203
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
PhD | University of the Punjab, Lahore, Pakistan | |||
PhD | University of the Punjab, Lahore, Pakistan | |||
PhD | , Lahore, Pakistan | |||
PhD | University of Sindh, Jamshoro, Pakistan | |||
LLM | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
MS | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
Mphil | Quaid-i-Azam University, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | University of Karachi, کراچی | |||
MSc | Quaid-i-Azam University, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
MSc | Quaid-i-Azam University, Islamabad, Pakistan | |||
LLM | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
LLM | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
MS | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
MS | University of Management and Technology, Lahore, Pakistan | |||
LLM | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | |||
PhD | University of the Punjab, لاہور | |||
Mphil | Quaid-i-Azam University, Islamabad, Pakistan | |||
MS | International Islamic University, Islamabad, Pakistan | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
منشی میراں بخش جلوہ انیسویں صدی کے ربع آخر میں سیالکوٹ میں اردو میں شعرو شاعری کرتے تھے۔ انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسوں میں شریک ہوتے ہوئے نظمیں پڑھتے تھے۔ آپ سراج الاخبار(جہلم) کے سیالکوٹ میں نمائندہ تھے۔ جلوہ کے پانچ شعری مجموعے گلشنِ نعت‘ جلوہ حق‘ تحفہ جلوہ‘ نوحہ جلوہ‘ دیوان جلوہ اور ایک نثری کتاب جو جلوہ کی شعری تصانیف کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ شائع ہو چکی ہیں۔(۵۳) جلوہ کی مذکورہ بالا کتب نایاب ہیں۔
مولانا عبد المجید سالک اپنی تالیف’’ذکرِ اقبال‘‘ میں جلوہ سیالکوٹی کے بارے میں لکھتے ہیں:
ایک شاعر منشی میراں بخش جلوہ سیالکوٹی تھے جو اکثر انجمنِ حمایتِ اسلام میں بھی آ کر نظمیں پڑھا کرتے تھے۔ نہ جانے کہاں سے شعر کہنے کی لت پڑ گئی۔ شعر کیا تھے پکوڑے تل لیا کرتے تھے۔ ان دنوں خزانے کے ایک کلرک اہلِ زبان تھے جلوہ صاحب ان کو اکثر شعر سنایا کرتے تھے۔ ایک روز انہوں نے تنگ آ کر کہا بھائی جلوہ تمہارے شعروں سے چھیچھڑوں کی بو آتی ہے۔ جلوہ صاحب تاؤ کھا کر شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کو اپنے اشعار سنا کر پوچھا کہ یہ اشعار کیسے ہیں شاہ صاحب۔ شاہ صاحب سے مراد مولوی سید میر حسن ہیں ‘ نے فرمایا سچ پوچھتے ہو تو تم نے شعروں کا جھٹکا کر دیا ہے۔(۵۴)
میراں بخش جلوہ فن تاریخ گوئی میں مہارت رکھتے تھے۔ شاعرِ کشمیر منشی محمد دین فوق کے چچا منشی غلام محمد خادم کا بیٹا محمود فوت ہوا تو جلوہ نے کئی تاریخیں کہیں جن میں سے ایک یہ ہے:
مر گیا جلوہ جو خادم کا پسر نام تھا محمود اور تھانیک خو
کیوں نہ خادم روئے سر کو پیٹ کر مل گیا ہے خاک میں