Subhanullah, ,
PhD
University of Peshawar
Peshawar
KPK
Pakistan
2018
Completed
Urdu Language and Literature
Urdu
http://prr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/Subhanullah_Urdu_HSR_2018_UoP_Peshawar_18.07.2018.docx
Romonized Title :Moulana Zafar Ali Khan Ki Shairi Mai Maghribi Istmaar Kay Khilaaf Mazahmati Rawaiyye
2021-02-17 19:49:13
2023-01-06 19:20:37
1676728172828
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
PhD | University of Peshawar, Peshawar, Pakistan | |||
Mphil | Riphah International University, Faisalabad, Pakistan | |||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
PhD | University of Sindh, Hyderabad, Pakistan | |||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
PhD | Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, Bahawalpur, Pakistan | |||
Mphil | University of Gujrat, گجرات | |||
PhD | University of the Punjab, Lahore, Pakistan | |||
PhD | Kanpur University
, کان پور | |||
Mphil | Minhaj University Lahore, لاہور | |||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
PhD | The Islamia University of Bahawalpur, Bahawalpur, Pakistan | |||
PhD | RDU, مدھیہ پردیش | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
PhD | Government College University, Lahore, Pakistan | |||
BAH | Government College University Lahore, لاہور | |||
Mphil | Riphah International University, Faisalabad, Pakistan | |||
BS | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
BS | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
پروفیسر حبیب الحق ندوی
فروری کا معارف چھپ چکا تھا کہ پروفیسر حبیب الحق ندوی کے انتقال کی اندوہ ناک خبر ملی۔ وہ باڑھ (پٹنہ) کے سادات کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے، مدرسۃ الاصلاح سرائمیر میں میری طالب علمی کے زمانے میں ان کے دوچھوٹے بھائی بھی تعلیم حاصل کررہے تھے جن سے ملنے کبھی کبھی حبیب الحق صاحب بھی آجاتے تھے، وہ خود بھی یہاں زیر تعلیم رہ چکے تھے، پھر پاکستان چلے گئے اور عرصہ سے جنوبی افریقہ کی ڈربن یونیورسٹی سے وابستہ تھے، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ سے بیعت تھے، ان سے ملنے لکھنؤ آتے رہتے تھے، اسی سلسلے میں ایک دفعہ بے سان و گمان دارالمصنفین بھی پہنچے، لکھنؤ سے اعظم گڑھ کا یہ سفر بڑا مشقت طلب رہا مگر دارالمصنفین کو دیکھتے ہی ان کی ساری کلفت دور ہوگئی، سرائمیر جانے کی خواہش کی جہاں کی سادگی اور اپنے زمانہ کے استاذوں کے ایثار و قناعت کے بڑے مداح تھے۔ ایک اور دفعہ ندوۃ العلماء میں روس کی آزاد مسلم ریاستوں کے بارے میں میں نے ان کا پُراز معلومات خطبہ سُنا تو انہیں اعظم گڑھ آنے کی دعوت دی یہاں بھی ان کی تقریر بہت پسند کی گئی جس سے ان کے علم و مطالعہ کی وسعت، حالاتِ حاضرہ سے باخبری اور ملی درد کا اندازہ ہوتا ہے۔ دارالمصنفین سے ان کو قلبی لگاؤ تھا، معارف پابندی سے پڑھتے، اس میں ان کے مضامین اور خطوط بھی شایع ہوتے تھے، اپنا سہ ماہی انگریزی رسالہ اور تمام کتابیں یہاں بھیجتے، ادھر عرصہ سے ان کا حال معلوم نہیں ہوا تھا، دفعتہ ان کے ارتحال کی خبر آگئی۔ اﷲ تعالیٰ غریق رحمت کرے اور متعلقین کو صبر و شکیب بخشے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۱۹۹۸ء)