Ambar Moin
Department of Special Education
University of Karachi
Karachi
Sindh
Pakistan
2000
Special Education
English
2021-02-17 19:49:13
2023-01-08 00:31:12
1676728333772
مولانا سید ابوظفر ندوی
ابھی یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ اچانک اطلاع ملی کہ مولانا سید ابوظفر ندوی نے اپنے وطن دیسنہ(بہار) میں وفات پائی۔اناﷲ واناالیہ راجعون۔مرحوم پرانے دور کے ندوی تھے۔ تمام علوم اسلامیہ وعربیہ میں دسترس رکھتے تھے،لیکن تاریخ ان کاخاص فن تھا، چنانچہ مرحوم نے جتنے مقالات لکھے اور جتنی کتابیں تالیف کیں اُن میں سے اکثر وبیشتر اسی موضوع پرہیں۔ اس فن کابڑا عمدہ اورصاف ستھرا مذاق رکھتے تھے، جو کچھ لکھتے تھے شگفتہ زبان میں لکھتے اور تحقیق کے ذریعہ فراہمی معلومات کاحق اداکردیتے تھے۔ ’مختصر تاریخ ہند‘ اور ’تاریخ سندھ‘ دارالمصنفین کی طرف سے شائع ہوکر مقبول عام وخاص ہوچکی ہیں۔ایک ضخیم کتاب ’’تاریخ گجرات‘‘ کے نام سے ندوۃ المصنفین کے زیرِ اہتمام طبع ہورہی ہے۔مختلف کالجوں میں پروفیسر رہے اوراب ادھر سالہا سال سے احمدآباد میں گجرات اکاڈمی سے وابستہ تھے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ کے بھانجہ یا بھتیجے تھے اور یوں بھی صورۃً وسیرۃً سیدصاحب سے اس درجہ مشابہ تھے کہ ۵۵ء میں اپنی صاحبزادی کی شادی کے سلسلہ میں کلکتہ آئے اور پہلے سے کسی اطلاع کے بغیر اچانک راقم الحروف سے ملنے کی غرض سے دفتر میں تشریف لے آئے تومرحوم کودیکھ کرسید صاحب کی شکل وصورت کا نقشہ آنکھوں میں پھر گیا اور بے قرار کرگیا،یہ بالکل پہلی ملاقات تھی مگروہی بزرگانہ شفقت ومحبت ، باتوں میں علمیت اورذہانت کے ساتھ وہی بھولا پن اورسادگی ،وہی غایتِ کرم اور توجہ۔ سمدھیانہ میں شادی کا ہنگامہ بپاتھا اس لیے شب غریب خانہ پر ہی بسر کی۔ احمد آبادسے بھی وقتاًفوقتاً خط لکھتے رہتے تھے اوراُس میں بھی وہی مشفقانہ اور بزرگانہ انداز ہوتاتھا۔میر ے اور اپنے خانگی معاملات پراس طرح گفتگو کرتے تھے کہ گویا ہم دونوں قریبی رشتہ دار ہوں۔ان ذاتی اخلاق کے علاوہ بڑے متشرع اور متدین تھے، دو راتیں میرے مکان پر...