Muhammad Safeer
Department of English
PhD
National University of Modern Languages
Public
Islamabad
Islamabad
Pakistan
2009
English Language
English
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676728695389
مولانا امتیاز علی خاں عرشی
سخت افسوس ہے گذشتہ ماہ فروری کی۲۵/تاریخ کومولانا امتیاز علی خاں عرشی بھی ۷۷برس کی عمر میں اپنے وطن رامپور میں داعیٔ اجل کولبیک کہہ کراس عالم فانی سے رخصت ہوگئے۔اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کی شہرت کاآغاز اوّل اوّل غالبیات کے ماہرکی حیثیت سے ہوا،انھوں نے غالب کے دیوان اور خطوط پرجوتحقیقی مقالات لکھے،انھوں نے اردو زبان وادب کے حلقہ میں دھوم مچادی۔ وہ بیک وقت عربی، فارسی اوراردو تینوں زبانوں اوران کے ادب کے نامور مبصرومحقق تھے۔
وہ رامپور میں۱۹۰۴ء میں پیداہوئے۔رامپور پٹھانوں کی مشہور بستی ہے جو افغانستان کے مختلف قبیلوں سے منسوب ہیں۔ مرحوم کاخاندانی تعلق حاجی خیل قبیلہ سے تھا جویوسف زئی قبیلہ کی ایک شاخ ہے، ابتدائی تعلیم مطلع العلوم نامی ایک مقامی مدرسہ میں پائی۔اسی زمانہ میں پنجاب یونیورسٹی سے عالم کاامتحان پاس کیا۔پھر اورینٹل کالج لاہور میں داخلہ لے کر اولاً مولوی فاضل کااوراس کے بعد منشی فاضل کاامتحان پرئیویٹ طورپر دیا اوردونوں امتحانوں میں درجہ اوّل میں کامیاب ہوئے۔ رامپور واپس آکر مدرسۂ عالیہ کی اونچی کلاس میں داخل ہوئے اور اس سے سند فراغ لی۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد چند دنوں ندوۃ العلماء کے سفیر رہے، اس سے بیزار ہوکر مستعفی ہوئے توتجارت کرنے لگے، ناتجربہ کاری کے باعث اس میں گھاٹاہوا تو دامن جھاڑ کراس سے بھی الگ ہوگئے۔ آخر۱۹۳۲ء میں رامپور کے مشہور زمانہ کتب خانہ جوتقسیم کے بعد سے رضا اسٹیٹ لائبریری کہلاتا ہے اس سے بحیثیت ناظم کے وابستہ ہوئے۔
کتب خانہ کے ساتھ ان کی یہ وابستگی زندگی کے آخری سانس یعنی کم و بیش نصف صدی تک باقی رہی۔اس مدت میں انھوں نے کتب خانہ کی کیسی عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں۔اس کااندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ملازمت سے سبکدوشی کے عام قانون سے مستثنیٰ کرکے گورنمنٹ نے آرڈر دے دیا ہے کہ...